واما قولہ الخراج بالضمان فاولا حدیث المصراۃ اصح منہ باتفاق اھل العلم مع انہ لا منافاۃ بینھما فان الخراج ما یحدث فی ملک المشتری ولفظ الخراج اسم للغۃ مثل کسب العبد واما اللبن ونحوہ فملحق بذلک وھنا کان اللبن موجودا فی الضرع فصار جزاء من المبیع ولم یجعل الصاع عوضا عما حدث بعد العقد بل عوضا من اللبن الموجود فی الضرع وقت العقد واما تضمین اللبن بغیرہ وتقدیرہ بالشرع فلان اللبن المضمون اختلط باللبن الحادث بعد العقد فتعذرت معرفۃ قدرہ فلہذا قدر الشرع البدل قطعا للنزاع وقدر بغیر الجنس لان التقدیر بالجنس قد یکون اکثر من الاول او اقل فیفضی الی الربا بخلاف غیر الجنس فانہ کان اتباع لذلک اللبن الذی تعذرت معرفۃ قدرہ بالصاع من التمر والتمر کان طعام اھل المدینۃ ومکیل مطعوم یقنات بہ کما ان اللبن مکیل مقتات وھو ایضا یقتات بہ بلا بصنعۃ بخلاف الحنطۃ والشعیر فانہ لا یقتات بہ الابصنعۃ فہو اقرب اجناس التی یقتاتون بھا الی اللبن ولھذا کان من موارد الاجتہاد ان جمیع الامصار یضمنون ذلک لمن یقتاتا لتمر فھذا من موارد الاجتہاد کامرہ فی صدقۃ الفطر بصاع من شعیر او تمر (رسالہ قیاس مشمولہ مجموعہ رسائل شیخ الاسلام جلد ثانی ص۲۵۷)
لیکن آپ کا یہ قول کہ محاصل ضمانت کے عوض میں ہے تو اس کا جواب اولا تو یہ ہے کہ حدیث مصراۃ اس حدیث (الخراج بالضمان) کی نسبت باتفاق اہل علم زیادہ صحیح ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں کیونکہ محاصل سے وہ چیز مراد ہے جو مشتری کی ملک میں ہوتے ہوئے پیدا ہو اور لفظ خراج اس محاصل کا نام ہے مثلاً غلام کی کمائی۔ اور دودھ اور مثل اس کی
|