(نمائشی) خریدار نہ بنا کرو۔ اور کوئی شہری کسی بدوی کے لئے بیع نہ کیا کرے اور تم بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکا کرو۔ اور جو کوئی ایسی بکری کو خریدے تو وہ دودھ دوہ لینے کے بعد دو امروں میں سے ایک کا مختار رہے۔ اگر اسے پسند ہے تو رکھ لے اور اگر پسند نہیں تو اسے واپس کر دے اور ایک صاع تمر بھی (ساتھ دیوے)۔
دیکھئے اس حدیث میں وہ تین امر بھی مذکور ہیں جو ’’ہدایہ‘‘ میں مذکور ہیں اور ان کی بنا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھی گئی ہے تو اگر یہ بزرگ (خدا ان پر رحمت کرے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی کی خاطر تصریہ کا حکم بھی لکھ دیتے تو کیسا اچھا ہوتا سارے مسائل حدیث کے موافق ہو جاتے اور مخالفت دور ہو جاتی۔
اب ایک بات رہ گئی کہ اگر کہا جائے کہ خیر واپسی کا اختیار تو مان لیا۔ لیکن ایک صاع تمر ساتھ دینے کا حکم کیوں کیا؟ حالانکہ حدیث ہی سے اوپر گذر چکا ہے ’’الخراج بالضمان‘‘۱[1]یعنی محاصل کا حق ضمانت کی وجہ سے مشتری کو ہے تو مصراۃ کی واپسی میں تو مشتری کو لینے کے دینے پڑ گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث ’’الخراج بالضمان‘‘ کے معنی یہ تھے کہ اگر وہ غلام اس مشتری کے پاس ہونے کی حالت میں مر جاتا تو نقصان اس مشتری ہی کا ہوتا پس اس کی اس عرصہ کی کمائی کا مشتری ہی مستحق ہونا چاہئے اور مشتری کو دودھ کا عوض دینے کا حکم کیا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تصریہ کی حالت میں دودھ جزو بیع تھا یعنی جانور کے ساتھ ہی تھا۔ نیا پیدا نہیں ہوا۔ پس جب جانور واپس کر دیا تو اس کا دودھ بھی واپس کرنا چاہئے اور دودھ اس دودھ سے مختلط ہو گیا جو بعد سودے کے پیدا ہوا اور ان میں تمیز مشکل تھی تو اس کے عوض جھگڑا چکانے کے لئے کچھ ادا کرنے کا حکم کیا۔ اور چونکہ عربوں کی عام اور آسان قوت کھجور تھی۔ اس لئے کھجور کا حکم کیا۔ چنانچہ اس کا ذکر ’’حجتہ اللہ‘‘ کی عبارت میں گذر چکا ہے اور حضرت سیخ الالسلام رسالہ ’’قیاس‘‘ میں ’’الخراج بالضمان‘‘ کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
|