Maktaba Wahhabi

305 - 484
سرتسلیم خم کر دینا چاہئے۔ کیونکہ سب مسلمان اس دربار کے غلام ہیں ۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے آگے سر اٹھا سکے۔ چنانچہ خداوند تعالیٰ نے فرمایا۔ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (احزاب پ۲۲) اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ جائز نہیں کہ جب اللہ (تعالیٰ) اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی امر کا فیصلہ کر دیوے تو ان کو اپنے اس امر میں کچھ اختیار باقی رہے اور جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ’’ہدایہ‘‘ میں جو ’’مطلق العقد‘‘ یعنی یہ سودے کا مقرر ہو جانا تقاضا کرتا ہے کہ مال عیب سے بری ہے۔ پس جب وصف سلامت نہ پایا گیا تو مشتری کو واپسی کا اختیار ہونا چاہئے۔ کیونکہ سودے کے وقت جو حالت جانور کی دکھائی گئی تھی۔ وہ اس کی واقعی و حقیقی نہ تھی۔ بلکہ بناوٹی تھی اور وہ اس کے بعد پائی نہیں گئی اور عادۃً یہ امر مثل اس معاملہ کے ہے جس میں ناپسندیدگی پر واپسی کی شرط کر لی گئی ہو پس مشتری کو واپس کرنے کا حق ہونا چاہے چنانچہ حاشیہ ’’ہدایہ‘‘ میں وصف السلامتہ پر کہا ہے۔ ای سلامۃ المعقود علیہ فکانت سلامتہ کالمشروط صریحا لکونھا مطلوبۃ عادۃ فعند فوات وصف السلامۃ یتخیر المشتری اذ لولزم العقد للزم بدون رضاء ولا بد من رضاہ۔[1] وہ جس کا سودا کیا گیا (سلامت چاہئے) پس اس کی سلامتی مثل اس کے ہے جس میں صریحاً شرط کر لی گئی ہو کیونکہ عادۃً سلامتی (بے عیب ہونا) مطلوب ہوتا ہے پس وصف سلامتی کے نہ ہونے کی صورت میں مشتری کو اختیار ہے کیونکہ اگر وہ بیع لازم قرار دی جائے تو اس کی رضا کے بغیر منعقد ہو
Flag Counter