وکل ما او جب نقصان الثمن فی عادْ التجار فہو عیب
’’ہر وہ امر جس سے تاجروں کے نزدیک مال کی قیمت کم ہو جاتی ہو وہ عیب ہے۔‘‘اب دیکھنا چاہئے کہ تصریہ کی صورت میں اگر مثلا کسی گائے کا دودھ آٹھ سیر نکلا اور اس کی قیمت ایک سو روپیہ ہوئی اور خریدنے کے بعد گھر جا کر دوسرے وقت میں چھ سیر دودھ ہوا۔ اور اس نے اسے بیچنا چاہا تو اس جانور کی قیمت سو روپیہ مل جائے گی؟ اگر نہیں مل سکتی تو تصریہ کو عیب کے سلسلہ میں کیوں نہ لیا جائے۔ کیونکہ اس کی صورت یہ ہے کہ جانور کے تھنوں میں دودھ جمع رہنے دیا جاتا ہے تاکہ خریدار کو زیادہ معلوم ہو اور حقیقت میں عادۃً اس جانور کا ایک وقت کا دودھ اتنا نہیں ہوتا۔ تو خریدار دھوکہ کھا جاتا ہے پس شریعت مطہرہ نے (جو لوگوں کے مالوں کی بھی ویسی ہی محافظ ہے جیسی ان کی جانوں کی اور عزتوں کی ہے) ایسے سودے میں مشتری کو اختیار دیا کہ اگر اسے پسند نہیں ہے تو واپس کر دیوے اور یہ عین عدل ہے۔
ایک اور نکتہ کی بات ہے کہ ’’ہدایہ‘‘ میں خیار عیب کی علت یہ بیان کی ہے۔
کیلا یتضرر بلزوم مالا یرضی بہ
تاکہ مشتری اس بیع کے لازم ہونے سے نقصان نہ اٹھاوے جس پر وہ راضی نہیں ہے۔
اور حدیث زیر بحث میں بھی یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
وان سخطہا ردّھا۔[1]
یعنی وہ اس پر راضی نہیں تو واپس کر دیوے۔
پس اب تو موافقت کی صورت نکل آئی کہ حنفی بزرگ بھی ناراضی کی صورت میں بیع کو لازم نہیں کرتے اور حدیث میں بھی یہی ہے تو اختلاف کس امر میں رہا اسی امر میں کہ ہم حنفی ہیں اور ہمارے بزرگوں نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا۔ اور یہ خصلت درست نہیں کیوں کہ حدیث رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے آگے جب وہ صحت کو پہنچ جائے
|