Maktaba Wahhabi

303 - 484
غلام کچھ مدت اس کے پاس رہا پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو بائع اور مشتری دونوں وہ جھگڑا آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جناب میں لائے تو آپ نے وہ غلام بائع کو واپس کر دیا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ یہ مشتری میرے غلام سے نفع اٹھاتارہا ہے۔ آپ نے فرمایا الخراج بالضمان[1] یعنی محاصل ضمان کی وجہ سے اسی کا حق ہے۔ یہ صورت جو اوپر مذکور ہوئی ہے اسے خیار عیب کہتے ہیں اور حنفیوں کے ہاں بھی مسلم ہے چنانچہ ہدایہ میں ہے۔ واذا طلع المشتری علی عیب فی المبیع فہو بالخیاران شاء اخذہ بجمیع الثمن وان شاء ردہ لان مطلق العقد یقتضی وصف السلامتہ فعند فواتہ یتخیر کیلا یتضرر بلزوم مالا یرضی بہ۔[2] ’’اور جب خریدار مال بیع میں کسی عیب پر آگاہی پاوے تو وہ مختار ہے اگر چاہے تو اسے پوری قیمت کے عوض رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے واپس پھر دے کیونکہ سودے کا پورا ہونا بالاطلاق عیب سے سلامت ہونے کو چاہتا ہے۔ پس سلامتی کے نہ ہونے کی صورت میں مشتری مختار ہے تاکہ وہ ایسی شے کے لازم ہو جانے سے ضرر نہ پاوے جس پر وہ راضی نہیں ۔‘‘ پھر عیب کی تعریف اس طرح کی ہے۔
Flag Counter