مفارقت ذکر کئے ہیں جن کا بیان موجب طوالت ہے۔
اسی طرح حافظ ابن قیم نے بھی ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اس حدیث پر مفصل لکھا ہے اور سب عذروں کو ایک ایک کر کے اڑا دیا ہے اور کہا ہے۔
کل ماذکرتموہ خطاء والحدیث موافق الاصول الشرعیۃ و قواعدھا ولو خالفہا لکان اصلابنفسہ کما ان غیرہ اصل بنفسہ واصول الشرع لا یضرب بعضہا ببعض کما نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یضرب کتاب اللّٰہ بعضہ ببعض بل یجب اتباعہا کلہا ویقرکل منہا علی اصلہ وموضعہ فانھا کلہا عن عند اللّٰہ الذی التقن شرعہ وخلقہ وما عدا ھذا فھو الخطاء الصریح
جو کچھ تم (حدیث مصراۃ کو رد کرنے والوں ) نے ذکر کیا ہے۔ وہ بالکل خطا ہے اور یہ حدیث اصول شریعت اور اس کے قواعد کے (سراسر) موافق ہے۔ اور اگر (بالفرض) خلاف بھی ہو تو وہ بذات خود ایک اصل ہے جس طرح کہ دوسری احادیث اصل ہیں اور اصول شریعت کو ایک دوسرے سے ٹکرایا نہیں جاتا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کتاب اللہ کے بعض کو بعض سے ٹکرایا جائے۔ بلکہ سب (نصوص شرع) کی پیروی واجب ہے اور ہر ایک کو اس کے مقام و موضع پر مقرر کیا جائے کیونکہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جس نے اپنی شریعت کو بھی اور اپنی مخلوق کو بھی خوب پختہ بنایا (کہ ان میں کوئی کسر نہیں رکھی ہے) اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سو وہ صریح خطا ہے۔
اب ہم بعض ایسے مسائل بیان کرتے ہیں ۔ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حکیم حقانی رسول ربانی نے خریدار کے لئے سودا واپس کر دینے کا اختیار باقی رکھا ہے اور ان میں عامتہ الناس کی مالی اور اخلاقی بہبودی ملحوظ رکھی ہے۔
پہلی مثال صحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔
|