فقیہ ہو جب اس میں رائے (قیاس) کا دروازہ بند ہو جاتا ہو تو اس حدیث پر عمل ترک کر دیا جائے گا۔ اور یہ قاعدہ جیسا کچھ بھی (واہی) ہے۔ ہماری اس (پیش نظر) صورت پر منطبق بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس مسئلہ (مصراۃ) کو امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے اور وہ تمہارے لئے مجتہد ہونے میں کافی ہیں اور اس لئے بھی کہ اس (ایک صاع) کا تقرر شریعت کی مقرر کردہ مقداروں کی طرح ہے جس کے حسن و خوبی کو تو عقل پا سکتی ہے۔ لیکن خاص اس مقدار کی معرفت کو بالاستقلال حاصل نہیں کر سکتی۔ مگر راسخین فی العلم کی عقل (جن کو منجانب اللہ بصیرت ہوتی ہے)
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ الحرانی شیخ الاسلام ’’رسالہ فی معنی القیاس‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
وحقیقۃ الامرانہ لم یشرع شئی علی خلاف القیاس الصحیح بل ما قیل انہ علی خلاف القیاس فلا بدمن اتصافہ بوصف امتیازیۃ عن الامور التی خالفہا واقتضی مفارقتہ لہا فی الحکم۔[1]
اور حقیقت امر یہ ہے کہ شریعت میں قیاس صحیح کی خلاف کوئی چیز مقرر نہیں کی گئی بلکہ جس امر کو خلاف قیاس کہا گیا ہے اس میں لازماً ایسا وصف ہے جس سے وہ ان امور سے ممتاز و الگ رکھا گیا۔ جس کے وہ خلاف ہے۔ اور اس سے مفارقت و جدائی کا متقاضی ہے۔
اس کے بعد شیخ الاسلام نے حدیث مصراۃ کا ذکر کر کے ان اعتراضوں کے جوابات ذکر کئے ہیں جو علمائے حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے متعلق کئے گئے ہیں ۔[2]
شیخ الاسلام کی تحریر کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جن نصوص سے استنباط کر کے حنفیہ نے اس حدیث کو رد کیا ہے۔ یہ حدیث ان نصوص کی ہم قسم جزئی نہیں ہے بلکہ یہ مستقل ایک خاص صورت ہے جس کا حکم ان سے الگ ہونا چاہئے۔ پھر وجوہات
|