والارزفانہا اعلی الاقوات واغلاھا واعتذر بعض من لم یوفق للعمل بھذا الحدیث بضرب قاعد من عند نفسہ فقال کل حدیث لا یرویہ الا غیر الفقیہ اذا نسد باب الرای فیہ یترک العمل بہ وھذہ القاعدۃ لا تنطبق علی صورتنا ھذہ لانہ اخرجہ البخاری عن ابن مسعود ایضا وناھیک بہ و لانہ بمنزلۃ سائر المقادیر الشرعیۃ یدرک العقل حسن تقدیر مافیہ ولا یستقل بمعرفۃ حکم ھذا القدر خاصۃ اللھم الاعقول الراسخین فی العلم
(میں کہتا ہوں ) تصریہ تھنوں میں دودھ کے جمع کرنے کو کہتے ہیں ۔ تاکہ خریدار دودھ کی زیادتی کا خیال کر کے دھوکے میں پڑ جائے۔ چونکہ اس کی شباہت خیار مجلس یا شرط کے بہت قریب تھی۔ کیونکہ سودے کا منعقد ہونا گویا کہ اسی بات پر ہے کہ وہ دودھ کی زیادتی سے مشروط ہے اس لئے خراج بالضمان کے باب سے نہیں بنایا گیا۔ پھر چونکہ دودھ کی مقدار اور اس کی قیمت اس کے تلف ہو جانے کے بعد بہت مشکل تھی کہ پہچانی جائے خصوصا شرکاء کے جھگڑے کے وقت اور صحرا جیسے مقام میں تو واجب ہوا کہ اس کے لئے بموجب ظن غالب کے کوئی معتدل حد مقرر کی جائے جس سے نزاع قطع ہو جائے اور (چونکہ) اونٹنی کے دودھ میں بو ہوتی ہے اور ارزاں مل سکتا ہے۔ اور بکری کا دودھ عمدہ ہوتا ہے اور گراں ملتا ہے۔ اس لئے ان دونوں کا حکم ایک ہی رکھا گیا۔ پس متعین ہوا کہ وہ ایک صاع ہو۔ اس ادنیٰ جنس (غلہ) میں سے جو عام لوگوں کی خوراک ہو مثل کھجور کے حجاز میں اور جو اور جوار کے ہمارے ملک میں نہ گیہوں اور نہ چاول کی جنس سے کیونکہ یہ دونوں سب خوراکوں میں سے گراں اور اعلی ہیں ۔ اور جس شخص کو اس حدیث پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ملی اس نے اپنے اپنے نفس سے ایک قاعدہ گھڑ کر یہ عذر بنایا اور کہا کہ ہر وہ حدیث جس کا راوی (صحابی) غیر
|