Maktaba Wahhabi

297 - 484
دھوکہ اور فریب دینے سے روکتے ہیں ۔ اس سے دھوکہ دینے والے کو تو باطنی خباثت اور اخلاقی برائی سے پاک رکھنا منظور ہے۔ اور جس کو دھوکے سے ایسا جانور دیا جائے اس کے مال کو نقصان سے اور اس کے دل کو صدمہ سے بچانا منظور ہے کیونکہ جب کسی جانور کا دودھ ایک وقت یا دو وقت اس کے تھنوں میں بند رکھا گیا۔ اور معرض بیع میں پیش کیا گیا تو جانور کو ناحق تکلیف پہنچنے کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ خریدار تو یہی سمجھے گا کہ عادۃً اور معمولاً اس جانور کا دودھ اتنا ہی ہوا کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اتنا نہیں ہوتا تو یہ سراسر فریب ہے کیونکہ جو حقیقت و اظہار کے خلاف ہے وہ جھوٹ اور فریب ہوتا ہے۔ پس حکیم حقانی۔ رسول ربانی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسا جانور خرید لے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ مجھے دھوکہ دیا گیا تو وہ مختار ہے اگر وہ باوجود اس کیفیت کے اس جانور کو رکھ لینا چاہتا ہے تو رکھ لیوے اور اگر واپس کر دینا چاہتا ہے تو اسے واپسی کا اختیار ہے۔ اصل مالک کو واپس پھیر دے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس دودھ کے عوض جو اس نے حاصل کیا ایک صاع تمر بھی ساتھ دیوے اور اس میں واپسی کے وقت اصل مالک کی تالیف بھی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ اسی حدیث مصراۃ کے ذیل میں فرماتے ہیں ۔ اقول۔ التصریۃ جمع اللبن فی الضرع لیتخیل المشتری غزارتہ فیغتر ولما کان اقرب شبھہ بخیار المجلس او الشرط لان عقد البیع کان مشروطا بغزارۃ اللبن لم یجعل من باب الضمان بالخراج ثم لما کان قدر اللبن وقیمتہ بعد اھلاکہ واتلافہ متعذر المعرفۃ جدالا سیما عند تشاکش الشرکاء وفی مثل البدو وجب ان یضرب لہ حد معتدل بحسب المظنۃ الغالبیۃ یقطع بہ النزاع ولبن النوق فیہ زھومۃ ویوجد رخیصا ولبن الغنم طیب ویوجد غالیا فجعل حکمھما واحدا فتعین ان یکون صاعا من ادنی جنس یقتاتون بہ کالتمر فی الحجاز والشعیر والذرۃ عند نالامن الحنطۃ
Flag Counter