Maktaba Wahhabi

296 - 484
قرآن و حدیث پر ہے جس سے غیر منصوص کا حکم اخذ کیا جاتا ہے۔ اور اس ضرورت کو رفع کیا جاتا ہے اس لئے اھل اصول بالاتفاق کہتے ہیں کہ قیاس مظہر حکم ہوتا ہے نہ کہ مثبت حکم[1]یعنی قیاس سے اس حکم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ جو نصوص شرعیہ میں ملحوظ شارع ہے۔ نہ کہ نئے سرے سے کسی حکم کی ایجاد۔ چنانچہ صاحب توضیح فرماتے ہیں ۔ وھذا ما قالوا ان القیاس مظھر للحکم لا مثبت۔[2] پس قیاس شرعی یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی خاص نص شرعی کو اجتہاد و استنباط سے رد کر دیا جائے۔ خلاصتہ المرام یہ کہ قیاس شرعی یہ ہے کہ منصوصات قرآن و حدیث کو اصل بنا کر غیر منصوص کا حکم معلوم کیا جائے یہ نہیں کہ نصوص قران و حدیث کو جو اصول شرع ہیں اپنے استنباط سے رد کر دیا جائے وھل ھذا الا عکس الموضوع یعنی اس سے تو اصل حقیقت ہی پلٹ جائے گی۔ اور اصل (قران و حدیث) فرع ہو جائے گا۔ اور فرع (قیاس) اصل ہو جائے گی۔ جیسا کہ فتح الباری سے سابقا حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے قول سے گذر چکا۔ اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ حدیث مصراۃ اصالتہً نصوص شرعیہ میں سے ہے۔ اور اپنے ثبوت کے لئے کسی قیاس کی محتاج و ممنون احسان نہیں ۔ لیکن چونکہ ہر حکم شرعی اپنے اندر ایک مصلحت و حکمت رکھتا ہے جس میں بندگان خدا کی دنیوی و اخروی یا اخلاقی بہتری ہوتی ہے۔ ہم اس حکمت کے متعلق بھی کچھ لکھتے ہیں تاکہ ہمارے ناظرین کو اس کی معقولیت اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ سو معلوم ہو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جانور کو اس کے تھنوں میں دودھ روک کر بیچنے سے منع کرتے ہیں ۔ اور اگر کوئی اس طرح کر کے جانور کو بیچ دیوے تو آپ اس خریدار کے لئے واپس کر دینے کا حق ثابت کرتے ہیں ۔ تو اس میں آپ
Flag Counter