Maktaba Wahhabi

294 - 484
جو اس کے خلاف ہو اسے رد کر دینا۔ اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ خبر واحد ہے اور اس سے بعض اقسام حدیث یعنی حدیث متواتر اور حدیث مشہور مخصوص ہیں ۔ پس یہ (حدیث) قطعی نہیں ہو سکتی۔ پس اس سے اصول کا یہ مسئلہ کس طرح ثابت ہو سکتا ہے علاوہ اس کے یہ بھی ہے کہ یہ (حدیث) ما اتکم الرسول فخذوہ یعنی جو کچھ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیویں لے لو کے عموم کے خلاف ہے۔ اور محدثین نے اس میں طعن بھی کیا ہے۔ کیونکہ اس کے راویوں میں سے یزید بن ربیعہ ہے اور وہ مجہول ہے۔ اور اس کی اسناد میں اشعت اور ثوبان کے درمیان ایک واسطہ متروک ہے۔ پس یہ (روایت) منقطع ہے۔ اور امام یحییٰ بن معین نے کہا یہ حدیث زندیقوں (بے دین لوگوں ) نے جعلی بنائی ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا اس کو اپنی صحیح میں روایت کرنا اس کے منقطع ہونے کے منافی نہیں ‘‘۔[1] (تلویح مطبوعہ مصر جلد ۲ص۹) آٹھواں امر: حدیث مصراۃ کا حکم معقول و حکیمانہ اور عدل و انصاف کا پیمانہ ہے۔ پہلے قیاس شرعی کی حقیقت سمجھ لینی ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایسا امر آجاوے جس کے حکم کے لئے کوئی خاص نص شرعی قرآن یا حدیث سے ہمیں معلوم نہیں ۔ پس ہم کتاب و سنت میں نظر کر کے کوئی ایسی نص معلوم کریں جس سے اس پیش افتادہ امر کو تعلق ہو۔ اور ان دونوں میں ایک علت جامعہ پائی جائے۔ پس اس علت جامعہ کی وجہ سے ہم اس پیش افتادہ امر پر وہی حکم لگاویں جو اس منصوص امر میں شارع علیہ السلام کی طرف سے لگا ہوا ہے۔ پس یہ ہے حقیقت قیاس شرعی کی۔ چنانچہ توضیح میں ہے۔
Flag Counter