سبکدوش ہو چکے ہیں ۔ اور حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے کلام سے انہی کی نسبت ’’لاحقیقتہ لہا‘‘ یعنی وہ بالکل بے حقیقت ہیں کا حکم گذر چکا ہے اور فتح الباری اور نیل الاوطار اور اعلام الموقعین میں بالتفصیل مذکور ہیں ۔
ساتواں امر: یعنی روایت تکثر لکم الاحادیث عنی۔۔۔۔ الخ کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت بالکل جھوٹی اور موضوع ہے اور صاحب اصول شاشی کی فن حدیث سے بے خبری کی دلیل ہے اور اصول شاشی کے بعض محشی تو ایسے بھی ہوئے جنہوں نے اس کا پتہ صحیح بخاری میں بتایا ہے حالانکہ یہ روایت صحیح بخاری میں نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت میں موضوع ہے اور اس بات کو خود حنفیہ نے تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ علامہ تفتازانی تلویح میں اسی مسئلہ یعنی خبر واحد کے سلسلہ میں حدیث مصراۃ کے ذکر کے بعد اس روایت کی نسبت فرماتے ہیں ۔
واستدل علی ذلک بقولہ علیہ السلام یکثر لکم الاحادیث من بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللّٰہ فما وافق فاقبلوہ وما خالفہ فردوہ واجیب بانہ خبر واحد وقد خص منہ البعض اعنی المتواتر والمشھور فلا یکون قطعیا فکیف یثبت بہ مسئلۃ الاصول علی انہ مما یخالف عموم قولہ تعالی ما اتکم الرسول فخذوہ (ومانھکم) وقد طعن فیہ المحدثون بان فی روایۃ یزید بن ربیعۃ وھو مجھول وترک فی اسنادہ واسطۃ بین الاشعت وثوبان فیکون منقطعاو ذکر یحیی بن معین رحمہ اللّٰہ انہ حدیث وضعتہ الزنا دقۃ وایرادہ البخاری ایاہ فی صحیح لا ینافی الا نقطاع
’’ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے استدلال کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا‘ میرے بعد تمہارے پاس میری بہت سی احادیث بیان کی جائیں گی پس جب تمہارے پاس میری طرف سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اسے ’’کتاب اللہ‘‘ پر پیش کرنا۔ پس جو اس کے موافق ہو اسے قبول کر لینا اور
|