اللہ کی بعض آیات کو بعض سے ٹکرایا اور کتاب اللہ کی آیات تو ایک دوسری کی تصدیق کرتی ہوئی نازل ہوئیں پس تم بعض کو بعض سے نہ جھٹلاؤ جو بات تم کو کتاب اللہ سے معلوم ہو جائے وہ کہہ دو اور جو معلوم نہ ہو اسے اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو (یعنی خود اس میں لب کشائی نہ کرو)
پس جائز نہیں کہ نصوص کتاب و سنت کو آپس میں ٹکرا کر بعض کو بعض سے رد کر دیں ۔ اس کے بعد یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ شرط مذکورہ بالا کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی آیت یا سنت مشہورہ سے جو کچھ کسی نے اجتہاد سے مستنبط کیا ہو‘ اس کی موافقت ضروری ہے۔ بلکہ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ جو حکم اس خبر واحد میں مذکور ہے کسی آیت قرآنی یا سنت مشہورہ مقبولہ میں اس کے خلاف مذکور نہ ہو۔ مثلاً ’’حدیث تصریہ‘‘ میں دو حکم ہیں ۔
ایک تصریہ پر مشتری کو واپسی کا اختیار دوم واپسی کی صورت میں ایک صاع کجھور کا ساتھ ادا کرنا۔ پس اس کی مخالفت میں کوئی ایسی آیت یا حدیث مشہور (یا کم از کم صحیح خبر واحد ہی سہی) پیش کر دی جائے۔ جس میں ان دونوں حکموں کے خلاف حکم ہو یعنی اس میں تصریہ پر واپسی کا حق زائل کیا گیا ہو۔ اور دودھ مفت میں ہضم کر جانا فرمایا ہو اور ہم نہایت یقین سے کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں کسی ایسی نص نہ ملے گی‘ اور نہ آج تک علمائے حنفیہ رحمہ اللہ کو ملی ہے۔ ورنہ وہ اپنی اجتہادی قوت کو صرف کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے شرح صحیح بخاری میں جس قدر امور ذکر کئے ہیں ۔ وہ سب استنباطی ہیں ۔ جن کی موافقت اللہ کے رسول اور اس کی شرع کے امین و مبین صلوات اللہ علیہ وسلامہ پر لازم گرداننی عکس موضوع ہے۔ اور یہی توضیح ہے فتح الباری کی اس عبارت کی جو سابقا گذر چکی ہے یعنی فکیف یرد الاصل بالفرع یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اصل ہے قیاس سے جو فرع ہے کس طرح رد کر سکتے ہیں ؟
باوجود اس کے پھر بھی علمائے حدیث ان میں سے ایک ایک کا جواب دے کر
|