واجب نہیں ہو گا جبکہ اس سے قیاس کا دروازہ بند ہوتا ہو اور انہوں نے ’’حدیث مصراۃ‘‘ کو ترک کر کے ایسا کر کے بھی دکھا دیا۔ پھر ان کے اس قاعدہ پر حدیث قہقہہ اور بھولے سے کھا لینے والے کا روزہ نہ ٹوٹنے کی حدیث سے جو الزام وارد ہوا تو انہوں نے اس کے جواب میں تکلف سے کام لیا اور جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کی مثالیں بہت ہیں ۔ ڈھونڈ بھال کرنے والے پر مخفی نہیں اور جو پڑتال اور تلاش نہ کرے اسے اشارہ کیا طویل بیان بھی کافی نہیں اور تیرے لئے محض محققین کا یہ قول کافی ہے۔ جو انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کہ جو (صحابی) قوت حافظہ اور تقوی اور دینداری میں مشہور ہو لیکن فقہ و اجتہاد میں معروف نہ ہو تو اس کی حدیث پر جب کہ اس سے قیاس کا دروازہ بند ہوتا ہو عمل کرنا واجب نہیں مثلاً ’’حدیث مصراۃ۔‘‘ یہ مذہب عیسی ابن ابان کا ہے اور بہت سے متاخرین نے (اس کی پیروی میں ) اس امر کو اختیار کیا ہے۔ اور امام کرخی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ راوی کا مجتہد ہونا شرط نہیں ہے کیونکہ حدیث (صحیح) قیاس پر (بہرحال) مقدم ہے اور بہت سے علماء نے امام کرخی رحمہ اللہ کی پیروی کی ہے ان کا قول یہ ہے کہ یہ قاعدہ ہمارے مشائخ (حنفیہ) سے منقول نہیں ہے بلکہ ان سے تو یہ منقول ہے کہ (صحیح) خبر واحد (بہرحال) قیاس پر مقدم ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی اس حدیث پر (برابر) عمل کیا کہ روزہ دار جب بھول کر کچھ کھا لے یا پی لے (تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا) اگرچہ یہ قیاس کے خلاف ہے حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہہ دیا کہ اگر (اس بارے میں ) یہ روایت نہ ہوتی تو میں قیاس سے فتویٰ دیتا۔
دوسرا طریق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی تحقیق کا یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کے کلام میں اوپر گذر چکا ہے کہ جماعت صحابہ میں اس امر میں حصرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مخالف کوئی نہیں تھا‘ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ جس امر میں قرآن و
|