Maktaba Wahhabi

284 - 484
وہ قیاس کے خلاف ہے کیونکہ اگر قیاس کے خلاف ہوتی تو ایسے جلیل القدر صحابی مجتہد کا قیاس اس کے موافق کیوں پڑتا۔ لیکن ہماری تحقیق یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اجتہاد سے فتویٰ نہیں دیتے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کہتے ہیں اور آپ کی طرف اسناد نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ کیونکہ بعض دیگر صحابہ بھی اور بالخصوص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی عادت سے پایا گیا ہے کہ وہ بعض اوقات مسئلہ کا ذکر کر دیتے تھے اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مسند نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ حدیث مرفوع و مسند ہوتی تھی اور اس امر کو علمائے حدیث بخوبی پہچانتے ہیں اور چنداں محتاج ثبوت و بیان نہیں ۔ چنانچہ اصول بزدوی میں ہے۔ وقد کانوا یسکتون عن الاسناد۔[1] ’’اور صحابہ کبھی اسناد سے خاموش رہتے تھے۔‘‘ ہماری تحقیق کی بنا دو باتوں پر ہے۔ اول اس پر کہ اس میں صاعامن تمر بھی موجود ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے۔ اور یہ بیان مقدار ہے اور مقادیر کا تقرر قیاس سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک شرعی حکم ہے جس کا تقرر صرف اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔ قیاس سے حکم شرعی کی علت و حکمت کو سمجھا کرتے ہیں ۔ مقادیر شرعیہ اور احکام شرع مقرر نہیں کئے جاتے پھر تو منصب تشریع میں شرکت ہو جائے گی (و نعوذ باللّٰہ من ذلک) چنانچہ اس اصولی مسئلہ کو حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ’’حجتہ اللہ‘‘ میں بالاستقلال نہایت مبسوط اور مدلل بیان کیا ہے۔ پس جس طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اس مسئلہ کو ذکر کیا۔ اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی ترجمان سے سن کر ذکر کیا۔ ایک نے مسند ذکر کیا اور ایک نے مسند ذکر نہیں کیا۔ مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ قیاس کے متعلق نہیں ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہی مسئلہ ابن ماجہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے رفعاً بھی مروی ہے گو رفع کی اس
Flag Counter