کر دیتے ہیں تو اگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں ایک اعلی درجہ کا مجتہد صحابی بھی یہی فتوے دیوے تو پھر تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بے سمجھی سے روایت نہیں کر رہے اور نیز یہ کہ ان کی یہ روایت قیاس کے بھی خلاف نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ بھی کتنے دور اندیش ہیں کہ جو کچھ آپ (حنفیہ) پیچھے کہنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ ان کو پہلے ہی کھٹک جاتا ہے۔ لیجئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا فتوی نقل کرتے ہیں جن کی فقاہت و روایت کا اعتبار حنفی مذہب میں خصوصیت سے ہے۔
عن[1]عبد اللّٰہ بن مسعود قال من اشتری شاۃ محفلۃ فردھا فلیرد معہا صاعا من تمرونھی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان تلقی البیوع۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے ایسی کوئی بکری خریدی جس کا دودھ اس کے تھنوں میں روکا ہوا تھا تو اگر وہ شخص اس بکری کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع تمر کھجور بھی دیوے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ (باہر سے) مال (لانے والوں ) کو آگے سے جا کر ملیں (اور ان کی شہر کے نرخ سے ناواقفی کی حالت میں خرید لیں )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کی نسبت فرماتے ہیں ۔
واظن ان لھذہ النکتۃ اورد البخاری حدیث ابن مسعود عقب حدیث ابی ہریرۃ اشارۃ منہ الی ان بن مسعود قد افتی بوفق حدیث ابی ہریرۃ فلو لا ان خبرابی ہریرۃ فی ذلک ثابت لما خالف ابن مسعود القیاس الجلی فی ذلک۔[2]
میرے خیال میں امام بخاری رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
|