اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ اسی حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں ۔
واعتذر بعض من لم یوفق للعمل بھذا الحدیث قاعدۃ عند نفسہ فقال کل حدیث لا یرویہ الاغیر الفقیہ اذا انسد باب الرای فیہ یترک العمل بہ۔[1]
’’اور بعض نے جن کو (جناب خداوندی سے) اس حدیث پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ملی اپنے پاس سے ایک قاعدہ گھڑ کر عذر کر دیا ہے کہ جو حدیث کوئی غیر فقیہ راوی روایت کرے جب اس کے متعلق قیاس کا دروازہ (بالکل) بند ہو جاتا ہو تو اس حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ان عبارتوں سے واضح ہے کہ محدثین کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی رعایت اور حمایت ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے پر حلیم سے حلیم اور متین[2]سے متین شخص ) کی طبیعت بھی ہل گئی ہے۔
اس کے علاوہ ایک یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بعض شاگرد مثلا امام زفر رحمہ اللہ بھی اس امر میں محدثین کے ساتھ ہیں اور بموجب ایک روایت کے امام ابو یوسف رحمہ اللہ بھی اس امر میں محدثین کے موافق ہیں چنانچہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے اسے خود لکھا ہے اور علامہ عبد العزیز بخاری رحمہ اللہ نے کشف الاسرار شرح اصول بزدوی میں اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ۔
ونقل عن ابی یوسف فی بعض امالیہ انہ اخذ بحدیث المصراۃ واثبت الخیار للمشتری (ص۷۰۳ جلد دوم)
اس کے بعد ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اچھا صحابی غیر فقیہ کی روایت کو تو آپ نے اس کے مخالف قیاس ہونے کی صورت میں متروک العمل قرار دیا۔ لیکن جب آپ فقیہ و مجتہد صحابی کی روایت کو ہر چند کہ وہ مخالف قیاس ہو تسلیم کرتے ہیں اور قیاس کو ترک
|