امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا کہ اصول روایت کے رو سے اس حدیث کی صحت و ثبوت پر (ائمہ حدیث کا) اجماع ہے اور اس شخص نے جس نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ ایسے عذر کئے ہیں جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔
(۴) والکتاب والسنۃ فی الحقیقۃ ھما الاصل والاخران مردودان الیہما السنۃ اصل والقیاس فرع فکیف یرد الاصل بالفرع بل الحدیث الصحیح اصل بنفسہ فکیف یقال ان الاصل یخالف نفسہ[1]
حقیقت میں قرآن و حدیث ہی اصول (شرع) ہیں اور باقی دونوں (اجماع و قیاس) کو انہیں کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ پس سنت (رسول صلی اللہ علیہ وسلم بالاستقلال) اصل ہے اور قیاس فرع ہے پس اصل کو فرع سے کس طرح رد کر سکتے ہیں بلکہ حدیث تو بذات خود ایک اصل ہے پس یہ قول کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ کوئی اصل اپنے آپ کے خلاف ہو۔
(۵) قال ابن عبد البرھذا الحدیث اصل فی النہی عن الغش واصل فی ثبوت الخیار لمن ولیس علیہ بعیب واصل فی انہ لا یفسد اصل البیع واصل فی ان مدۃ الخیار ثلاثۃ ایام واصل فی تحریم التصریۃ و ثبوْ الخیاربھا
حافظ ابن عبد البر نے کہا کہ یہ حدیث کھوٹ اور دغا کی ممانعت کے متعلق اصل ہے نیز اس شخص کی واپسی کے اختیار کے لئے اصل ہے جس پر فریب کی رو سے عیب ظاہر نہ کیا گیا ہو نیز اس بارے میں اصل ہے کہ بیع تمام ہو جاتی ہے اور فاسد نہیں ہوتی[2]نیز اس امر میں اصل ہے کہ واپسی کے اختیار کی مدت تین دن ہیں نیز[3]تصریہ کی حرمت اور اس کی وجہ سے ثبوت خیار میں اصل ہے۔
|