اس دل و دماغ کے آدمی بھی ہیں جو اس حکم کو خلاف قیاس کہہ کر رد کر دیتے ہیں ۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا۔
پہلے ہم اس حدیث (مصراۃ) کے متعلق محدثین کی بعض عبارتیں لکھتے ہیں ۔ ان سے آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی قائل اور اس پر دل و جان سے عامل کون ہیں ؟ اور اسے صرف اپنی موافقت و مطلب براری کے وقت محض تائیدی طور پر نقل کرنے والے کون ہیں ؟ خاتمۃ الحفاظ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں ۔
(۱) وقد اخذ بظاہر ھذا الحدیث جمہور اھل العلم وافتی بہ ابن مسعود و ابوہریرۃ ولا مخالف لہم من الصحابۃ وقال بہ من التابعین ومن بعدھم من لا یحصی عددہ
اس حدیث کے ظاہر کو جمہور اہل علم نے لیا ہے اور اسی کے مطابق ابن مسعود اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (صحابیوں ) نے فتوی دیا اور جماعت صحابہ میں سے ان کا کوئی بھی مخالف نہیں ۔ اور اسی کے مطابق تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ میں سے اتنی تعداد کے ائمہ نے کہا جن کی گنتی نہیں ہو سکتی۔
(۲) وقال ابن السمعانی فی الاصطلام التعرض الی جانب الصحابۃ علامۃ علی خذلان فاعلہ بل ھو بدعۃ وضلالۃ وقد اختص ابوہریرۃ بمزید الحفظ لدعاء الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
ابن سمعانی نے ’’اصطلام‘‘ میں کہا کہ صحابہ کی جانب تعرض کرنا اس کے کرنے والے کے لئے خذلان (اللہ تعالیٰ کا ساتھ نہ ہونے) کی علامت ہے۔ بلکہ یہ بات ایک بدعت اور گمراہی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے زیادہ حفظ سے مخصوص تھے۔
(۳) وقال ابن عبدالبرھذا الحدیث مجمع علی صحتہ وثبوتہ من جھۃ النقل واعتل من لم یاخذ بہ باشیاء لاحقیقتہ لہا۔
|