اس حدیث میں دو حکم ہیں ’’خیار رد‘‘ یعنی واپس کر دینے کا اختیار اور واپسی پر دودھ کے عوض ایک صاع طعام کا ساتھ ادا کرنا۔
حنفیہ کرام رحمہ اللہ نے ان دونوں باتوں سے انکار کیا ہے نہ تو وہ واپسی کے اختیار کے قائل ہیں اور نہ طعام کے کیونکہ حدیث ان کے نزدیک قیاس کے برخلاف ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ ان کے نزدیک مجتہد نہیں تھے اور غیر مجتہد صحابی کی جو روایت خلاف قیاس ہو وہ ان کے ہاں مقبول نہیں ۔
اس حدیث کی صحت میں جو امام بخاری اور مسلم کی متفقہ روایت سے ہو۔ کیا کلام ہو سکتا ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح حدیث کے مراتب مرتبہ اولیٰ کے ضمن میں لکھتے ہیں ۔
ویلتحق بھذا التفاضل ما اتفق الشیخان علی تخریجہ۔[1]
یعنی مرتبہ اولیٰ کی فضیلت میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جن کو شیخین (امام بخاری و مسلم) نے بالاتفاق روایت کیا ہو۔
اور مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی حنفی اس کے حاشیہ بین السطور میں شیخان کے لفظ پر لکھتے ہیں ۔ ’’البخاری و مسلم‘‘
ہر چند یہ کہ حدیث درجہ اولیٰ میں ہے۔ لیکن تقلید ایک ایسی زبردست تحریک ہے کہ اس کا بند دلائل کی قوت قاہرہ سے بھی بمشکل ٹوٹتا ہے۔
اسناد کی رو سے اس حدیث میں کوئی جرح نہیں ہو سکتی۔ اصول محدثین کے رو سے اس میں کوئی قدح نہیں تھی۔ اس لئے مذہبی پاسداری سے اس سنت صحیحہ کے رد کرنے میں اتنے حیلے تراشے گئے کہ اس حدیث کے راویوں کی جلالت قدر پر نظر رکھنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکیمانہ و عادلانہ تعلیم کی خوبی کو نظر عزت و قدر دانی سے دیکھنے والا اور اصول تمدن میں اس حکم کے نہایت ہی مفید ہونے اور عام لوگوں کو دھوکے فریب کے ضرر سے بچانے بلکہ خود دھوکہ دینے والے کو باطنی خباثت اور اخلاقی بدباطنی سے پاک رکھنے کو سمجھنے والا۔ منصف مزاج انسان حیران رہ جاتا ہے کہ الٰہی کیا دنیا میں
|