Maktaba Wahhabi

275 - 484
النار ارادبہ غسل الایدی والافواہ من الزھومۃ وقیل اراد بہ وضوء الصلوٰۃ وذھب الیہ قوم من الفقہاء۔[1] ’’یعنی اور کبھی وضو سے صرف بعض اعضاء کا دھونا مراد ہوتا ہے اور اس معنی میں حدیث ’’ توضوأ مما غیرت النار‘‘ ہے یعنی یہ حدیث اس شے کے کھانے سے وضو کرو جسے آگ نے متغیر کیا ہو اس حدیث میں ’’توضواء‘‘ سے مراد ہاتھ اور منہ کا دھونا ہے۔ بوجہ چکنائی کے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد نماز کا وضو ہے اور اس طرف بھی فقہاء کی جماعت گئی ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس نے اس حدیث میں جو معنی مراد لئے ہیں ان کی تائید دیگر احادیث مرفوعہ سے بھی ہوتی ہے چنانجہ سنن ابی داؤد میں ہے۔ ’’باب الوضوء من اللبن‘‘ اس لفظ میں وضو صاف لکھا ہے پھر اس کے بعد حضرت ابن عباس کی روایت سے ذیل کی روایت ذکر کی ہے۔ عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ و الہٖ وسلم شرب لبنا فدعا بماء فتمضمض ثم قال انہ لہ دسما۔[2] ’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا۔ تو پانی طلب کیا پس کلی کی اور فرمایا کہ اس میں چکنائی ہوتی ہے۔‘‘ اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا بعد ازاں کلی کر لی۔ اور فرمایا کہ اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ گویا کلی کرنے کی وجہ سمجھا دی۔ اس سے زیادہ یہ کہ وضو کا لفظ محض ہاتھ دھونے اور کلی کرنے کے لئے خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دیگر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ مشکوۃ میں بحوالہ ترمذی و ابو داؤد حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم برکۃ الطعام الوضوء قبلہ
Flag Counter