Maktaba Wahhabi

274 - 484
ڈیڑھ ہزار (صرف) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہیں اور امام بخاری نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مہاجرین اور انصار کی اولاد میں سے سات سو شخصوں نے روایت کی۔ اور صحابہ کی (بھی) ایک جماعت نے ان سے روایت کی پس ان کی حدیث کو قیاس سے رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ ان حوالہ جات سے معلوم ہو گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ معمولی نہیں بلکہ خاص درجہ کے مجتہد تھے اور جن حنفیوں نے آپ کے اجتہاد کا انکار کیا ہے۔ علم حدیث میں فردمایہ ہونے کے سبب کیا ہے۔ امر چہارم: یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اعتراض کی تحقیق یوں ہے کہ نہ تو انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ سمجھ کر اعتراض کیا اور نہ اس حدیث کو خلاف قیاس جان کر رد کیا۔ یہ بات تو کسی عام صحابی سے بھی بعید ہے چہ جائیکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر متبع سنت کی نسبت ایسا خیال کیا جائے حاشا وکلا توبہ استغفر اللہ۔ کشف حقیقت: اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث کے متعلق دونوں صحابیوں (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں فہم مطلب میں اختلاف تھا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کو ظاہر پر حمل کرتے تھے یعنی وضو سے وضوئے متعارف مراد لیتے تھے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس جگہ وضو سے صرف ہاتھ اور منہ کا اندرونی حصہ صاف کرنا یعنی کلی کرنا مراد لیتے تھے۔ اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نظائر سے سمجھایا‘ کہ جب گرم پانی وغیرہ سے وضو متعارف جائز ہے۔ تو آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کس طرح ٹوٹ جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث میں وضو سے مراد وضوئے متعارف نہیں ۔ بلکہ صرف ہاتھ (جس سے کھایا) اور منہ (جس میں کھایا) ان ہر دو کو صاف کرنا یعنی دھو لینا مراد ہے اور بس۔ جو کچھ ہم نے فہم مطلب کے اختلاف کی نسبت لکھا وہ بعد کے علماء میں بھی برابر چلا آیا۔ چنانچہ لغت حدیث ’’نہایہ ابن اثیر‘‘ میں لفظ وضو کے ذیل میں لکھا ہے۔ وقد یراد بہ غسل بعض الاعضاء ومنہ حدیث توضؤا مما غیرت
Flag Counter