اسی طرح علامہ عبدالعزیز بخاری حنفی رحمہ اللہ نے تو کشف الاسرار شرح ’’اصول بزدوی‘‘ میں نہایت زور سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مجتہد ہونا لکھا ہے اور اس کے انکار کرنے والے کی تردید کی ہے چنانچہ فرماتے ہیں ۔
علی انا لا نسلم ان ابا ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ لم یکن فقیہا بل کان فقیہا ولم یعدم شیئا من اسباب الاجتہاد وقد کان یفتی فی زمان الصحابۃ وما کان یفتی فی ذلک الزمان الافقیہ مجتہد وکان علیۃ اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رضی اللّٰہ عنہم وقد دعا النبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) لہ بالحفظ فاستجاب اللّٰہ تعالی لہ فیہ حتی انتشرفی العالم ذکرہ وحدیثہ وقال اسحق الحنظلی ثبت عندنا فی الاحکام ثلاثۃ الاٰف من الاحادیث روی ابو ہریرۃ منہا الف وخمس مائۃ وقال البخاری روی عنہ سبع مائۃ نفر من اولاد المہاجرین و الانصار وقد روی جماعۃ من الصحابۃ عنہ فلا وجہ الی رد حدیثہ بالقیاس۔[1]
(اس کے بعد یہ کہ) ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھے بلکہ (ہم کہتے ہیں ) کہ وہ فقیہ تھے۔ اور اسباب اجتہاد میں سے کوئی سبب بھی ایسا نہ تھا جو ان میں موجود نہ ہو۔ اور وہ صحابہ کے زمانہ میں فتوی دیا کرتے تھے۔ اور اس زمانہ میں سوائے مجتہد کے کوئی فتوی نہ دیا کرتا تھا۔ اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی قدر اصحاب میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) کے حق میں حافظہ کی دعا کی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں آپ کی دعا قبول فرمائی اور ساری دنیا میں ان کا ذکر اور ان کی حدیث پھیل گئی۔ اور امام اسحاق حنظلی نے کہا کہ ہمارے پاس (مسائل) احکام میں کل تین ہزار حدیثیں ثابت ہوئی ہیں ۔ جن میں سے
|