Maktaba Wahhabi

272 - 484
کے مقابلہ میں ان کی روایت کو ٹھکرا دیا جائے۔ اللھم احفظنا۔ امر سوم:۔ یہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ و مجتہد تھے یا عامی؟ سو اس کا بیان اس طرح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے مجتہد ہونے سے انکار کرنا علم حدیث و روایت کے مطالعہ کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ جو شخص اسفار حدیث پر نظر رکھتا ہو۔ اسے بغیر تسلیم کے چارہ نہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقہائے صحابہ میں سے تھے۔ تمام اسباب اجتہاد ان کو قدرت نے عطا کئے تھے۔ اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں برابر صاحب فتوی اور صاحب اجتہاد تھے۔ اس بات کا اقرار خود حنفیہ شراح اصول کو بھی ہے۔ جنہوں نے علم حدیث پڑھا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات و اجتہادات کو نظر غور سے دیکھا۔ چنانچہ ہم بعض کی عبارتیں نقل کرتے ہیں ۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ جو متاخرین حنفیہ میں درجہ اجتہاد تک پہنچے۔ اور مذہب حنفی کے خاص الخواص حامیوں میں سے ہیں فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں ۔ والمائۃ الالف الذین توفی عنہم صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یبلغ عدۃ المجتہدین الفقہاء منہم اکثر من عشرین کالخلفاء والعبادلۃ و زید بن ثابت و معاذ بن جبل و انس و ابی ہریرۃ و قلیل والباقون یرجعون الیہم و یستفتون منہم۔[1] اور ایک لاکھ اصحاب جن کو چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے۔ ان میں سے مجتہدین کی گنتی بیس سے زیادہ تک نہیں پہنچتی مثلا خلفاء اربعہ اور عبادلہ اور زید بن ثابت اور معاذ بن جبل اور انس اور ابو ہریرہ اور کچھ اور تھوڑے سے۔ اور باقی سب کا رجوع انہی (مجتہدین صحابہ) کی طرف تھا۔ اور وہ انہی سے فتوی پوچھا کرتے تھے۔
Flag Counter