زیادت بھی ایک قسم کا نسخ ہے اور یہ کہ عام مثل خاص کے قطعی ہوتا ہے اور یہ کہ راویوں کی کثرت سے ترجیح نہیں ہو سکتی۔ اور نیز یہ کہ جب رائے اور قیاس کا دروازہ بند ہو جائے تو غیر فقیہ (صحابی) کی روایت پر عمل کرنا واجب نہیں اور یہ کہ مفہوم اور شرط اور وصف کا ہرگز اعتبار نہیں اور یہ کہ امر کا تقاضا ضرور ضرور وجوب ہی ہے اور مثل ان کے دیگر اصول ایسے ہیں جن کی ائمہ کے کلام سے تخریج کی گئی ہے۔ اور ان اصول کی روایت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے صاحبین (امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ ) سے صحیح طور پر ثابت نہیں اور یہ کہ ان اصول کی نگہبانی کرنا اور ان اعتراضوں کے جواب میں جو ان پر وارد ہوتے ہیں تکلف کرنا جس طرح بزدوی رحمہ اللہ وغیرہ کرتے ہیں اپنے استنباطوں میں متقدمین کا دستور نہیں تھا اور وہ ان کے خلاف پر محافظت کرنے اور ان کے جواب سے جو ان پر وارد ہوتے ہیں زیادہ حقدار نہیں ہیں ۔
ان حوالجات سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہے کہ محدثین کے علاوہ خود حضرات حنفیہ بھی صریحاً لکھتے ہیں کہ اشتراط فقہ راوی کا اصول حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقرر کردہ نہیں ہے۔ بلکہ عیسی بن ابان کا ایجاد کردہ ہے اور اس سے پیشتر کسی بھی امام نے یہ بات نہیں کی۔
اب ہم اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے یہ اصول کیوں وضع کیا۔
عیسیٰ بن ابان ابتداء میں اہل حدیث تھے۔ امام محمد رحمہ اللہ کی صحبت میں رہ کر ان سے متاثر ہو گئے۔[1]خیالات میں انقلاب ہوا۔ تو اختلاف کے وقت نئے اختیار کردہ طریق کے مقابلہ میں جو روایات آئیں ۔ ان کی تحقیقات میں اس شرط کا بڑھانا ضروری خیال کیا کہ جو صحابہ غیر فقیہ ہوں باوجود ان کے صادق و عادل ضابطہ ہونے کے قیاس[2] (اپنی رائے)
|