Maktaba Wahhabi

258 - 484
اس بات سے نہ روکو۔‘‘ اس جگہتَعْضُلُوهُنَّ میں فاولیاء کو خطاب ہے۔ اگر اولیاء کو بالغہ کے نکاح میں کچھ حق نہ ہوتا تو ان کو تَعْضُلُوهُنَّ سے خطاب نہ کیا جاتا۔ بلکہ بے اختیار محض قرار دے کر ساقط الاعتبار کہہ دیا جاتا‘ اور ان ینکحن میں نکاح کو عورتوں کی طرف نسبت کر کے ان کا حق ایجاب سمجھا دیا ہے اور تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ میں عورت کا ایجاب اور مرد کا قبول بتایا ہے۔ پس جہاں مناسب جانا صرف ایک بات ذکر کی اور جہاں مناسب جانا دوسرے امر بھی ذکر کر دئے وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًاکیونکہ ان سب کو امر نکاح میں دخل ہے اور یہی معنی ہیں حدیث الثیب احق بنفسہا من ولیھا[1]کے کہ ثیبہ کا حق ولی کی نسبت زیادہ ہے یہ نہیں کہ ولی بے اختیار محض ہے کیونکہ احق اسم تفصیل کے بعد من وارد ہے۔ اور اسم تفصیل کا ایسا استعمال مقابلہ کے لئے آتا ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ اجاب اصحابنا عنہ بانھا احق ای شریکۃ فی الحق۔[2] ’’ہمارے اصحاب (شوافع) نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ (عورت) احق یعنی حقدار ہونے میں شریک ہے۔‘‘ حاصل کلام یہ کہ فعل کے اسناد کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ بالغہ عورت کی رضا بھی منجملہ شرائط نکاح کے ہے۔ باقی رہا ولی کا بھی دخل سو یہ اس کے خلاف نہیں ۔ ہاں زائد ہے جس کا لحاظ دیگر آیات میں برابر رکھا گیا ہے۔ اور حدیث میں اس کا ذکر صراحت اور صفائی سے کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبین قرآن ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کے ذریعہ جو کچھ چاہا۔ اسے بیان کرنے والے ہیں ۔ چاہے اپنی زبان وحی ترجمان سے بیان کر دیں ۔ چاہے اپنے طریق عمل سے بتا دیں جیسا کہ فرمایا۔
Flag Counter