Maktaba Wahhabi

257 - 484
قضیہ ایجابیہ میں صرف مذکور کا ثبوت ہوتا ہے۔ اور اس سے ماعدا کی نفی لازم نہیں آتی۔ کما تقرر فی کتب المنطق فافھم ولا تکن من القاصرین۔ اور حدیث مذکور میں یہ بتایا گیا ہے کہ عورت کی منظوری کے علاوہ ولی کی اجازت بھی ضروری ہے۔ چنانچہ عورت کی منظوری لفظ نکحت سے اور ولی کی اجازت لفظ اذن سے ظاہر ہے۔ پس جس طرح شاہدین کی حاضری مفہوم آیت سے زائد ہے جو اسی حدیث اور اس قسم کی دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا اسے بھی تسلیم کر لینا چاہئے۔ غرض یہ کہ حدیث میں بھی قرانی امر کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یعنی یہ نہیں کیا گیا کہ بالغہ عورت امر نکاح میں بے اختیار محض ہے۔ جس سے مفہوم قرآنی میں تغیر آجاتا ہو۔ بلکہ مفہوم قرآنی کو ثابت رکھ کر اس سے ایک زائد امر بھی بتایا ہے۔ لہٰذا برعایت دیگر جمیع احادیث جن میں شرائط نکاح مذکور ہیں آیت تنکح سے یہ مراد ہو گی کہ وہ عورت برعایت ارکان شرعیہ نکاح شرعی کرے یہ نہیں کہ جس طرح چاہے کر لے۔ تنبیہ: ہاں اتنی بات ضرور ہو گی کہ ہماری تحریر کے مطابق تنکح میں نکاح سے شرعی نکاح مراد ہو گا نہ لغوی۔ اور حنفیہ اور اہل حدیث ہر دو کے نزدیک حقیقت شرعی حقیقت لغوی و عرفی پر مقدم ہوتی ہے کما تقدم و تقرر فی الاصول۔ اور شرط ولی کو اس مقام پر اس آیت میں اس لئے ذکر نہیں کیا کہ شروط بلاغت میں سے یہ بھی ہے کہ متکلم مقتضائے حال کو ملحوظ رکھے اور اس کے مطابق کلام کرے اور کسی امر کے ذکر کی ضرورت و عدم ضرورت اکثر متکلم کے ارادہ کے ماتحت ہوتی ہے پس خدا تعالی حکیم کے نزدیک یہ مقام مقتضی ذکر نہیں اور اس سے تھوڑا آگے اولیاء کو صاف الفاظ میں خطاب کر کے فرمایا۔ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ (پ ۲ سورہ بقرہ) ’’جب مطلقہ عورتوں کی عدت پوری ہو جائے اور وہ اپنے (طلاق دینے والے) خاوندوں سے آپس کی رضا مندی سے پھر نکاح کرنا چاہیں تو تم ان کو
Flag Counter