سے کتاب اللہ کی تخصیص اور اس پر زیادت حضرات حنفیہ کے نزدیک بھی مسلم ہے۔
دیگر یہ کہ اصول شاشی میں بحث خاص ہی میں اس مسئلہ زیر بحث میں چند سطور پیشتر مذکور ہے۔
فان امکن الجمع بینھما بدون تغیر فی حکم الخاص یعمل بھما[1]
’’پس اگر خاص کا حکم بدلنے کے بغیر ان دونوں میں جمع ممکن ہو تو دونوں پر عمل کیا جائے گا۔‘‘
اس کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ آیت و حدیث زیر بحث میں جمع ممکن ہے اور تنکح کے خاص ہونے میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ پس حدیث مذکور متروک نہیں ہو سکتی۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ شریعت مطہرہ کے نصوص کے استقراء سے معلوم ہے کہ عقد ارکان شرعی یہ امور ہیں ۔ (۱) عورت کی طرف سے ایجاب (۲) اس کے ولی کی اجازت (۳) مرد کی طرف سے قبول (۴) کم از کم دو گواہ (۵) اور کسی قدر مہر بھی۔
صغیرہ اور کنیز کے لئے تو بالاتفاق ولی و مولی کی ضرورت ہے۔ اختلاف صرف بالغہ کی نسبت ہے کہ اس کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ضروری نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ و امام احمد رحمہ اللہ رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک اس کے لئے بھی ولی کی ضرورت ہے۔ سیدنا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے ایک دلیل یہ ہے کہ لفظ قرآنی تنکح میں نسبت فاعلی عورت کی طرف ہے۔ پس بالغہ عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں فعل عورت کی طرف سے اس لئے نسبت کیا گیا کہ چونکہ انعقاد و نکاح کے لئے منکوحہ بالغہ کی رضا بھی منجملہ شرائط کے ہے۔ اس لئے علم معانی کی رو سے اس کی طرف فعل کی اسناد جائز ہے۔ پس تنکح کی اسناد سے صرف اتنا ثابت ہو سکتا ہے کہ اپنے عقد نکاح میں بالغہ عورت کو بھی دخل ہے۔ اس میں حصر کی کوئی دلیل نہیں کہ امر نکاح صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ ایسے
|