جس طرح اس میں حضور شاہدین کا ذکر ہے اسی طرح ولی کی ضرورت بھی مذکور ہے۔ پس ایک امر کو لے لینا اور دوسرے کو چھوڑ دینا۔ ایں چہ؟
طرفہ یہ کہ بقول امام ابن ہمام رحمہ اللہ کے حضور شاہدین کے بارے میں اس کے سوا دیگر کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ لیکن اشتراط والی حدیث مذکور الفوق کا مضمون دیگر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى۔
اس کے بعد ہم اس عقدہ کو کھولتے ہیں جو صاحب اصول شاشی نے حدیث[1]زیر بحث کی نسبت فرمایا کہ یہ خبر واحد ہے سو معلوم ہو کہ یہ خبر واحد نہیں کیونکہ اشتراط ولی کے مضمون کو کوئی تیس صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
چنانچہ ’’الروضتہ الندیہ‘‘ شرح ’’الدررالبہیہ‘‘ میں شیخ شیخنا حضرت نواب صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں ۔
قال الحاکم قد صحت الروایۃ فیہ عن ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عائشۃ وام سلمۃ و زینب بنت جحش ثم سرد تمام ثلثین صحابیا (روضہ مطبوعہ مصر ص۱۸۶)
’’امام حاکم نے کہا کہ اس امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حضرت عائشہ و ام سلمہ و زینب بن حجش کی روایات صحیح ثابت ہو چکی ہیں (امام حاکم نے) تیس اصحابوں کے نام بہ ترتیب ذکر کئے ہیں ۔‘‘
یہ تو صحابہ کی تعداد ہے اور ان کے بعد تو ہر زمانہ میں اس کے راوی زیادہ ہی زیادہ ہوتے گئے۔ اگر ہم ان سب کا نقشہ بنا کر بتائیں تو مضمون بہت طویل ہو جائے۔
دیگر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مابعد کے زمانوں تک مسلمانوں کا تعامل اس کثرت کے ساتھ ملایا جائے تو مسئلہ اشتراط ولی متواترات شرعیہ میں شمار ہو سکتا ہے۔ اور بالخصوص فقہاء حنفیہ کے نزدیک بھی کم از کم اسے مشہور تو ضرور مانا جا سکتا ہے۔ پس اس سے قرآن مجید پر زیادت بالاتفاق جائز ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مشہور حدیث
|