کیا۔ بلکہ صرف اسی قدر کہہ کر اس کا بے اصل ہونا ظاہر کر دیا غریب بھذا للفظ اور اس کے بعد کے مضمون کو دیگر احادیث سے ثابت کیا ہے۔ چنانچہ وہ عبارت یوں ہے۔
وفی الباب احادیث منہا ما اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ عن سعید بن یحیی بن سعید الاموی ثنا حفص بن غیاث عن ابن جریج عن سلیمان بن موسی عن الزھری عن عروۃ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ لا نکاح الا بولی و شاھدی عدل وما کان من نکاح علی غیر ذلک فہو باطل فان تشاجروا فالسلطان ولی من لاولی لہ انتھی۔[1]
’’اس کی بابت کئی ایک (دیگر) احادیث (بھی) ہیں جن میں سے ایک یہ (بھی) ہے جسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں سعید بن یحییٰ اموی سے روایت کیا۔ اس نے کہا ہم سے حفص بن غیاث نے حدیث بیان کی۔ اس نے ابن جریج سے اس نے سلیمان بن موسیٰ سے اس نے امام زہری سے اس نے عروہ سے اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ نکاح نہیں ہوتا مگر ولی اور دو عادل گواہوں سے اور جو نکاح اس کے سوا ہو وہ باطل ہے اور اگر اولیاء آپس میں اختلاف کریں تو سلطان اسلام ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں ۔‘‘
اس کے بعد امام ابن حبان کا قول اس کے بعض راویوں کی نسبت ذکر کر کے اخیر میں بطور فیصلہ امام ابن حبان ہی سے نقل کیا ہے۔
ولا یصح فی ذکر الشاھدین غیر ھذا الخبر (انتہی کلامہ ص۲)
اس حدیث کے سوا دیگر کوئی حدیث (نکاح کے) دو گواہوں کے ذکر میں صحیح ثابت نہیں ہے۔
ہم اس مقام پر اس حدیث سے صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور
|