’’اور مسلمانوں کا نکاح (کم از کم) دو گواہوں کی حاضری کے بغیر منعقد نہیں ہوتا۔‘‘
اور اس کی شرح میں ہدایہ میں کہا ہے۔
اعلم ان الشہادۃ شرط فی باب النکاح لقولہ علیہ السلام لانکاح الا بشہود (ہدایہ جلد دوم ص۲۸۶)
معلوم ہوا کہ معاملہ نکاح میں شہادت شرط ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نکاح درست نہیں ہوتا مگر گواہوں سے۔
اس مقام پر کم از کم دو گواہوں کی حاضری شرط رکھی ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث بیان کی ہے۔ لیکن اس کی تخریج حسب عادت ذکر نہیں کی یعنی یہ نہیں بتایا کہ اس حدیث کو کس امام حدیث نے روایت کیا۔ خیر صاحب ہدایہ نے تو نہیں بتایا لیکن خاتمہ الحفاظ عسقلانی رحمہ اللہ تخریج ہدایہ میں اس کی بابت فرماتے ہیں ۔
لم ارہ بھذا اللفظ یعنی میں نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ کہیں نہیں دیکھا۔
سبحان اللہ! ایسی حدیث سے استناد کرنا جو حفاظ محدثین کے دیکھنے میں بھی نہ آئی ہو اور ایسی حدیث سے انکار کر دینا جسے امام احمد رحمہ اللہ ‘ امام ابو داؤد رحمہ اللہ ‘ امام ترمذی رحمہ اللہ ‘ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ وغیرھم بڑے بڑے ائمہ حدیث نے روایت کیا ہو اور امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہو۔ حدیث نبوی کو بالا ستقلال دلیل شرعی جاننے والے کے نزدیک نہایت تعجب خیز ہے۔
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ بالغہ عورت کے نکاح میں ولی کی اجازت اپنے امام کے نزدیک ضروری نہیں اس لئے وہ قابل تسلیم نہیں ۔ اگرچہ حدیث میں صاف مذکور ہے اور چونکہ حضور شاہدین اپنے امام کے نزدیک ضروری ہے۔ اس لئے اسے شرط قرار دیا گیا۔ اگرچہ وہ حدیث جس سے استناد کیا گیا ہے بے اصل محض ہے۔
اس کے بعد ہم یہ بھی ذکر کر دینا مناسب جانتے ہیں کہ امام زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے بھی تخریج ہدایہ میں اس حدیث شہود کی تخریج میں نہیں بتایا کہ کس امام حدیث نے روایت
|