تنبیہ:۔
ظاہر میں تو سمجھا جائے گا کہ قرآن مجید کی عظمت کو قائم رکھنے کے لئے ہر چیز کو جو کسی نہج سے بھی معارض قرآن ہو ترک کر دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقرر کردہ قاعدہ (خاص) کے مقابلہ میں حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے انکار کرنے کا ایک مہذب حیلہ ہے۔
اللہ اللہ کس قدر جرات ہے جس امر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین دفعہ بتاکید فرماویں اسے معارض قرآن کہہ کر ٹالدیا جائے پھر اس کے معنی تو یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود افصح العرب ہونے کے نہ تو اپنی زبان جانتے تھے اور نہ باوجود رسول اللہ اور معلم شریعت ہونے کے قرآن سمجھتے تھے۔ زبان عربی کے ماہر ہوئے تو عجمی اور قرآن کے عالم ہوئے تو امتی۔ استغفر اللّٰہ ثم استغفر اللہ
اگر یہ عذر کر دیا جاتا کہ یہ حدیث صحیح نہیں یا یہ کہہ دیا جاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ابطال سے ابطال حقیقی نہیں تو اتنا مضائقہ نہ تھا صرف علمی تحقیقات کا اختلاف رہتا۔ لیکن ناظرین آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ والعیاذ باللہ۔
جواب اچھا جناب والا! اگر آیت میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کرنے سے ولی کی شرطیت اس سے زائد ہو کر قابل رد ہے تو آیت میں بالغہ نابالغہ کا بھی تو فرق نہیں ہے اور مرد کی قبولیت کا بھی ذکر نہیں ہے اور حضور شاہدین (دو گواہوں ) کا بھی ذکر نہیں ہے۔ پس جس طرح عورت بغیر ولی کی اجازت کے استقلالاً اپنے اختیار سے نکاح کر سکتی ہے اسی طرح اس کا نکاح بغیر شہادت شاہدین کے بھی درست سمجھا جانا چاہئے اور مرد کی قبولیت کے بغیر بھی نکاح منعقد ہو جانا چاہئے۔ حالانکہ یہ سب صورتیں آپ کے نزدیک نادرست ہیں نہ تو آپ صغیرہ کو بغیر ولی کی اجازت کے اختیار نکاح دیتے ہیں اور نہ مرد کی قبولیت کے بغیر آپ نکاح جائز جانتے ہیں اور نہ شاہدین کے بغیر آپ کوئی نکاح درست جانتے ہیں چنانچہ ہدایہ متن ہدایہ میں ہے۔
ولا ینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شاھدین (ہدایہ جلد۲کتاب النکاح)
|