پیشانی زمین پر رکھنے کو کہتے ہیں اور (لفظ) خاص محتمل بیان نہیں ہوتا جو کہا جائے کہ نص (آیت) مطلق ہے اور حدیث مذکور اس کے بیان کے لئے ہے (اگر ایسا کیا جائے) تو سوائے نسخ (حکم قرآن) کے اور کیا ہو گا اور یہ بات[1]خبر واحد سے جائز نہیں ۔ پس مناسب ہے کہ قرآن و سنت میں سے ہر ایک کے مرتبے کی رعایت رکھی جائے پس جو قرآن سے ثابت ہوا وہ فرض ہے کیونکہ قطعی ہے اور جو کچھ سنت سے ثابت ہوا وہ واجب ہے کیونکہ سنت ظنی ہے۔
یہ عبارت ہمارے مقصود کے اثبات میں ایسی عیاں ہے کہ محتاج بیان نہیں ۔ مصنف مرحوم نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب نقل کیا کہ وہ تعدیل ارکان کو بھی فرض جانتے ہیں اور ان کی دلیل وہی حدیث مسئی[2]بیان کی۔ پھر اپنا مذہب ذکر کیا کہ ہم تعدیل ارکان کو فرض نہیں بلکہ واجب جانتے ہیں اور دلیل میں کوئی آیت نہیں ۔ حدیث نہیں بلکہ اپنا ایک قاعدہ بیان کیا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ارکعوا اور اسجدوا۔ معلوم المعنی ہے اور جو لفظ معلوم المعنی ہو وہ محتمل بیان نہیں ہوتا۔ اس لئے امر خداوندی مفہوم لغوی کی حد تک محدود رہے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ اس کے درجے کا یعنی فرض نہیں ہو گا۔ بلکہ اس سے کم رتبے کا یعنی واجب ہو گا اور حدیث کے مقابلے میں یہ عذر کر دیا کہ اول تو آیت مطلق نہیں ہے کہ اس کے بیان کی ضرورت ہو دیگر یہ کہ حدیث بجز واحد ہے جو ظنی الثبوت ہے۔ اور اس سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں ہو سکتا گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ رکوع و سجود کے متعلق جو کچھ آنحضرت نے بحثیت شارع وامین وحی ہونے کے فرمایا وہ امر الٰہی کا بیان نہیں ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافق دیگر محدثین حدیث مسئی اور دیگر احادیث کے نقشے کو زیر نظر رکھ کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار لم تصل
|