ان سے مشورہ کرتے۔ پھر جس امر پر وہ متفق ہو جاتے اس پر فیصلہ کر دیتے۔
ہم نے اس روایت کو اس مقام پر اس غرض کے لئے پیش کیا ہے کہ عصر صحابہ میں قران و حدیث کے ہوتے ہوئے کسی دیگر امر کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس روایت سے یہ امر بھی ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ عامہ صحابہ کی مجلس منعقد کرنے کے بعد اگر اس امر میں کوئی حدیث نہ پاتے تو خواص صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرف جو قوت اجتہاد و استنباط رکھتے تھے رجوع کرتے اور دریافت طلب امر کی مشکل کو حل کرتے تھے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حاضرین میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پیش آمدہ امر کی نسبت کچھ یاد ہو خواہ وہ صحابی فقیہ و مجتہد ہو خواہ نہ ہو۔ پس اگر حاضرین میں سے کسی کو بھی کوئی منصوص حکم معلوم نہ ہوتا تو اجتہاد کے لئے فقہائے صحابہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا۔ اس سے دو مفید نتیجے ظاہر ہیں ۔
اول یہ کہ حفظ نصوص اور روایت حدیث کے لئے فقاہت و اہلیت اجتہاد شرط نہیں ہے۔
دوم یہ کہ اجتہادی امور میں کسی معین شخص کی رائے کی پابندی کا زمان صحابہ میں دستور نہیں تھا۔
اس مقام پر یہ امر بھی قابل یاد رکھنے کے ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ‘ صحابہ رضی اللہ عنہ میں سب سے افضل و اعلم وافقہ تھے پھر بھی اکیلی اپنی رائے پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔
بعض وقت حدیث میں کسی آیت قرآنی کی تخصیص وارد ہوتی ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک اس تخصیص کو آیت قرآنی سے مستثنی رکھنا چاہئے۔ اس کی تفصیلی بحث گو اس فصل میں کی جائے گی جس میں علم اصول پر بحث ہو گی۔
لیکن ہم اس مقام پر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ خلاف صدیقی میں قرآن شریف سے تمسک کرتے وقت بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کہاں تک رعایت رکھی جاتی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
|