ان فاطمۃ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سالت ابا بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ بعد وفاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقسم لہا میراثھا ما ترک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مما افاء اللّٰہ علیہ فقال لہا ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لانورث ما ترکنا صدقۃ الحدیث۔[1]
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے میراث کا حصہ طلب کیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہماری (گروہ انبیاء کی) وراثت نہیں چلتی جو کچھ بھی ہم چھوڑ جائیں وہ (راہ خدا میں ) صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی نظر عموم آیت قرآنی يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ الایہ (النساء پ۴) پر تھی جیسا کہ ترمذی کی روایت میں مصرح ہے کہ انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا فمالی لاارث ابی[2]یعنی کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وراثت نہ پاؤں ۔‘‘
لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی سے سمجھا دیا کہ آیت قرآنی میں يُوصِيكُمُ کے مخاطب امتی ہیں نبی نہیں ۔ جس پر حضرت خاتون رضی اللہ عنہ جنت خاموش ہو گئیں ۔ اور پھر اس بارے میں کلام نہ کیا۔[3] اور اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں فیصلہ صدیقی میں کوئی تغیر نہیں کیا۔
دیگر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرار داد کا اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ امور عبادت و تشریع کے علاوہ امور مشورہ جن میں مصلحت وقت کے لحاظ کا بھی اختیار ہے۔ ان میں بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم سے تل بھر نہ ہٹتے
|