اجمعین) کا ہے۔ چنانجہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک کتاب خلق افعال العباد نام معتزلہ کے رد میں اسی نمط پر لکھی۔[1]
ان کے بعد بھی محدثین کی یہی روش رہی کہ کیا عقائد اور کیا اعمال سب میں نصوص ہی کی پیروی واجب جانتے رہے۔ چنانچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ ظاہری اندلسی جن کا پایہ جملہ فنون عقلیہ اور جمیع علوم نقلیہ میں مسلم کل ہے ’’کتاب الفصل‘‘ میں معتزلہ مرجیہ ‘ شیعہ اور خوارج کا ذکر کر کے ’’اہل سنت و اہل حدیث‘‘ کی نسبت لکھتے ہیں ۔
قال ابو محمد واھل السنۃ الذین نذکر ھم اھل الحق ومن عداھم فاھل الباطل فانھم الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وکل سلک نھجھم من خیار التابعین رحمۃ اللّٰہ علیہم ثم اھل الحدیث ومن اتبعھم من الفقھاء جیلا فجیلا الی یومنا ھذا ومن اقتدی بہم من العوام فی شرق الارض وغربھا رحمۃ اللّٰہ علیہم۔[2]
اور اہل سنت جن کو ہم اہل حق کے نام سے یاد کریں گے۔ اور ان کے مخالفین کو اہل باطل کے نام سے وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور خیار تابعین میں سے بھی جو ان کے طریق پر چلے (وہ بھی اہل سنت ہیں ) پھر اہل حدیث اور جو کوئی فقہاء میں سے ان کا پیرو ہو زمانہ بزمانہ ہمارے اس زمانے تک اور عوام میں سے بھی جو کوئی ان کا پیرو ہوا چاہے زمین کے مشرق میں ہے چاہے مغرب میں ۔ ان سب پر خدا کی رحمت ہو (یہ سب اہل سنت ہیں !)
اہل حدیث نے بہت عرصہ تک علوم عقلیہ کی طرف توجہ نہ کی۔ بلکہ ان کو سخت نفرت سے دیکھتے رہے۔ اور اپنی قدیم روش (اتباع نصوص) پر قائم رہے۔ لیکن بعد کے زمانوں میں ان میں بھی بڑے بڑے ائمہ معقولات ہوئے جنہوں نے عقائد سلف کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے اور عقائد بدعیہ کی تردید کر کے مخالفین میں ہمت
|