Maktaba Wahhabi

608 - 609
میں مجلّہ الضّیاء،لکھنؤ:رجب 1352ھ کے شمارے میں چھپے،تقی الدین ہلالی فرماتے ہیں: "وللشيخ المذكور(حميد الدين)ديوان شعر سمعته منه،بليغ مؤثر في استنهاض همم المسلمين وبث الحياة في قلوبهم وذكر عداء الأفرنج لهم وذكر حرب طرابلس والحرب الكبرى. والرّجل فصيح في التكلّم لغاية،نادر في علماء العرب فضلًا عن علماء الهند،وسنّه تخمينا 70،وقد أسّس مدرسة سماها مدرسة الإصلاح لا يدرس فيها إلا القرآن الذي هو ضالته المنشودة،وسمعت منه خطبة تفسيره للقرآن أغر ورقت منها عيناي لفصاحتها وحقيتها،وهو عارف بمسئلة الخلافة محقق له،لا يلتبس عليه شيء من أمرها خلافا لأهل الهند،يجتهد في العقائد والعمليات لا ينتمي لمذهب لكنه يتعبّد على مذهب الحنفية لأنّه نشأ عليه ويعتقد أن الأمر في مثل ذلك سهل،أسمر اللون،حسن الملامح،طويل القامة،لحيته مستديرة بيضاء ناصعة،ماهر في الإنجليزية والعربية والفارسية والأردية،قد تقلب في وظائف عديدة،منها:أنه كان مدرسًا عاليًا في عليكر ھ،وبالجملة فهو أعلم من لقيته قبل هذا الحين وهو 17 رمضان 1342ھ." [1] ’’علامہ حمید الدین صاحب کا ایک دیوان شعر بھی ہے،جو میں نے ان سے سنا،یہ دیوان بلیغ اور موثر طور پر مسلمانوں کے حوصلے بلند کرتا ہے ان کے دلوں میں زندگی کی لہر دوڑاتا ہے۔اس میں فرنگیوں کی مسلم دشمنی،جنگ طرابلس اور جنگ عظیم کا ذکر ہے۔وہ بڑی فصیح گفتگو کرتے ہیں۔علمائے ہند تو ایک طرف علمائے عرب میں بھی ایسے اشخاص بہت کم ہیں۔ان کی عمر اندازا 70 برس ہوگی۔انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے جس کا نام مدرسہ الاصلاح رکھا ہے۔اس میں صرف قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کی متاعِ گم گشتہ ہے۔میں نے ان سے ان کی تفسیر قرآن کا مقدمہ سنا۔اس کی فصاحت اور حقانیت سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ مسئلہ خلافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں،اس پر ان کی محققانہ نظر ہے۔اہل ہند کے برعکس ان پر اس مسئلے کی کوئی بات مشتبہ نہیں ہے۔عقائد اور اعمال میں مجتہدانہ شان کے مالک ہیں۔کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کو پسند نہیں کرتے،لیکن نماز حنفی طریقے کے مطابق ہی پڑھتے ہیں،اس لئے کہ اسی مذہب پر ان کی نشو ونما ہوئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح آسانی رہتی ہے۔رنگ گندم گوں،چہرا بشرہ خوبصورت،قد کشیدہ،داڑھی گول سفید اور براق ہے۔انگریزی،عربی،فارسی اور اُردو میں مہارت رکھتے ہیں۔کئی عہدوں پر فائز رہے۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ علی گڑھ میں کالج کی سطح پر استاد تھے۔مختصر یہ کہ اس وقت تک میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں،وہ ان میں سب سے بڑے عالم ہیں۔17 رمضان 1342ھ‘‘ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کو مختلف حیثیتوں سے مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ان کی نظر میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کیا مقام رکھتے تھے؟ اس کی جھلک مولانا کی وفات پر لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتی ہے: ’’اس عہدکا ابن تیمیہ 11نومبر1930ءكو اس دُنيا سے رخصت ہو گیا۔وہ جس کے فضل وکمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالمِ اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عصر حاضر کا معجزہ تھی۔عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا
Flag Counter