Maktaba Wahhabi

831 - 609
تفصیلی گفتگو کی ہے۔ان کے نزدیک ہواؤں کے تصرفات اور ان کے فرق و امتیازی نیرنگیاں عجیب و غریب ہیں۔ایک قوم کے ساتھ ان کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔دوسری قوم کے ساتھ کچھ اور۔کسی قوم کے لئے یہ ابر کرم کی بشارت بن کرنمودار ہوتی ہے کسی قوم کے لئے طوفان عذاب بن کر۔[1] ہواؤں کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہواؤں اور بادلوں کے تصرفات عجیب و غریب صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔کبھی ہوائیں اٹھتی ہیں،بوجھل بادلوں کی مشکیں اپنی پیٹھوں پر لادتی ہیں او ران کو چٹیل میدانوں میں لے جاکر جل تھل کردیتی ہیں۔کبھی سمندروں میں سامان سے بھری ہوئی کشتیوں کو کھیتی ہیں جن سے تجارت و معیشت کے لئے بے شمار فوائد ظہور میں آتے ہیں،کبھی ریگستانوں سے حاصب بن کرابھرتی ہیں اور آباد بستیوں کو ریت اور پتھروں سے ڈھانک‎ دیتی ہیں کبھی مرمر بن کر اولے اور کڑک کے عذاب کی شکل میں نمودار ہوتی ہے،کبھی طوفان بن کر سیلاب انگیز بارشیں لاتی ہیں اور سمندروں میں ہیجان پیدا کردیتی ہیں۔ہواؤں اور بادلوں کی یہی مختلف حالتیں ہیں جن کو قرآن نے ’’تقسیم أمر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔یہ اللہ عزو جل کی قدرت و حکمت اور اس کے اختیار و تصرف کی ایک عجیب شان ہے کہ وہ کبھی ہوا کی تندی اور شدت کو ایک قوم کے لئے نجات کاذریعہ بنا دیتاہے اور کبھی اس کی نرمی اور اس کے سکون سے اس کو تباہ کردیتا ہے۔اس کی بہترین شہادت فرعون اور اس کے لشکر کی سرگزشتہ میں موجود ہے۔[2] قوم نوح کی تباہی تند ہوا کے ذریعہ سے واقع ہوئی مولانا قوم نوح کی تباہی میں ہواؤں کے کردار پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جس طرح دوسری قوموں کو اللہ عزو جل نے عذاب میں پکڑا اسی طرح نوح علیہ السلام کی قوم کو بھی عذاب میں پکڑا۔لیکن قرآن اور تورات میں ان کی تباہی سے متعلق جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کی تباہی میں بھی اصل دخل ہوا کے تصرفات ہی کو رہا ہے۔چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ کہ او رہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا او روہ ان کے اندر پچاس سال کم ایک ہزار سال رہا۔پس ان کو پکڑا طوفان نے اور وہ ظالم تھے۔ اس میں طوفان کا لفظ خاص طور پر لائق غور ہے۔طوفان کے لغوی معنی دوران یعنی گردش کرنے اور چکر کھانے کے ہیں۔عام استعمال میں اہل عرب اس سے وہ تند ہوا مراد لیتے ہیں جوتیزی سے چکر کھاتی ہوئی اٹھتی ہے۔ایک جاہلی شاعر راعی اپنی اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے: تُمْسِي إذا العِيسُ أَدْرَكْنَا نَكائَثها خَرْقَاءَ يَعْتَادُهَا الطُّوفَانُ وَالزُّودُ[3]
Flag Counter