Maktaba Wahhabi

606 - 609
مقام ومرتبہ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ ایک متبحر عالم اور مجتہد تھے آپ گہری علمیت اوربے مثال وسعت نظری کا عجیب وغر یب مرقع تھے۔مولانا نے امت مسلمہ کے لئے وہ علمی خدمات سرانجام دیں جن کے بارے اُمت مسلمہ کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی۔زعمائے ملت کی نظر میں مولانا ایک بلند مقام ومرتبہ رکھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا کا علمی پایہ مسلم تھا۔عربی وفارسی ہی میں وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی،ان کی ذہانت اورعلمی فکر سے متاثر تھے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے جن شیوخ سے اکتسابِ فیض کیا ان میں سر فہرست علامہ شبلی نعمانی کا نام آتا ہے،جن کی تعلیم وتربیت نے ان کی فکر ی صلاحیتوں کو بیدار کیا اورانہیں علومِ عالیہ سے روشناس کرایا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے فخر وامتیاز کےلئے یہی کافی ہے کہ علامہ شبلی رحمہ اللہ ان کی کتابوں کی تلخیص خود کرکے ’الندوہ‘ میں شائع کرتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی مولانا فراہی رحمہ اللہ کی قرآنی فکر کو کس قدر اہمیت دیتے تھے،اس حوالے سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’مولانا حمید الدین فراہی نے نظم آیات کا جو تصور دیا،مولانا شبلی کواپنے شاگردکے اس نظریہ سے اختلاف تھا اوروہ مولانا فراہی کی کوششوں کو رائیگاں سمجھتے تھے،لیکن جب انہوں نے ا ن کی تفسیر کے متعدد اجزاء دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور آخر داد دینے لگے۔اور آخر میں تو وہ حمید الدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہو گئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے تھے،ایک خط میں لکھتے ہیں:’’تفسیر ابی لہب اور جمہرۃ البلاغہ کے اجزاء بغور دیکھے،تفسیر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں۔تمام مسلمانوں کو تمہارا ممنون ہونا چاہیے۔‘‘ [1] مولانا شبلی رحمہ اللہ مجلہ ’الندوہ‘ میں دسمبر 1905ء کے شمارے میں لکھتے ہیں: ’’عام قیاس یہ ہے کہ صاحبِ کمال کسی حالت میں گمنام نہیں رہ سکتا۔تجربہ اور تاریخ بھی اسی کی شہادت دیتے آئے ہیں،لیکن کوئی کلیہ مستثنیٰ سے خالی نہیں۔مولوی حمید الدین جن کی ایک عجیب وغریب تصنیف کا اس وقت ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں،اس استثنا کی ایک عمدہ مثال ہے ..... یہ تصنیف(تفسیر نظام القرآن)خصوصاً اس زمانے میں اسلامی جماعت کے لئے اس قدر مفید اور ضروری ہے،جس قدر ایک تشنہ لب اور سوختہ جاں کے لئے آب زلال۔‘‘ [2] مولانا شبلی رحمہ اللہ کا وہ کام جو ان کی پہچان بن گیا،’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ لکھنا ہے،اس بارے میں سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا شبلی مرحوم اس وقت ’سیرۃ النبی‘ کی پہلی جلد لکھ رہے تھے۔یہود ونصاری اور اہل کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآن پاک کے استدلالات میں وہ برابر اپنے بھائی(مولانا فراہی)سے مشورہ لیتے رہے جو مکاتیب(57۔73)سے ظاہر ہیں۔سیرۃجلد اول کے مقدمہ میں حضرت اسمٰعیل کی سکونت اورقربانی کے متعلق جو باب ہے اس کا مواد مولانا حمید الدین ہی نے بہم پہنچایاتھا،جس کو آئندہ چل کر مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے بڑھا کر اور پھر اور زیادہ استقصا کر کے "الرأي الصّحیح في
Flag Counter