Maktaba Wahhabi

620 - 609
بہرحال مولانا نے حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب کے حلقہ درس میں بیٹھ کر فقہ واُصول کی تعلیم حاصل کی،یہ تعلیم غالباً سال بھر جاری رہی۔‘‘[1] مولانا ارشاد حسین رام پوری(1893ھ)کا شمار وقت کے مشہور اساتذہ میں ہوتا ہے۔مولانا شبلی رحمہ اللہ نے ان سے پڑھا تھا،مگر مولانا فراہی رحمہ اللہ کا استفادہ کسی دلیل قطعی سے ثابت نہیں۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس حوالے سے رقمطراز ہیں: ’’شبلی کا رام پور جانا اور مولانا ارشاد حسین رام پوری سے استفادہ کرنا معلوم ہے۔مولانا ارشاد حسین فقہ اور اصول کے آدمی تھے۔فرنگی محل میں تشنگی ذوق کی تسکین کا سامان نہ پاکر جس طرح شبلی نے رام پور کا رُخ کیا،ہو سکتا ہے کہ مولانا فراہی نے بھی لکھنؤ کو خیر آباد کہنے کے بعد رام پور کا قصد کیا ہو۔یہ بات زیادہ قرینِ قیاس اور اقرب الی الصواب محسوس ہونے لگتی ہے اگر ہم نظر میں رکھیں کہ مولانا کے اس تعلیمی سفر کی آخری منزل لاہور ہے اور رام پور راستے کا ایک مقام ہے جہاں وقت کے کچھ مشہور اساتذہ جمع ہیں۔‘‘[2] مولانا ارشاد حسین نے رامپور میں ہی 1893ء بمطابق 1311ھ میں بروز سوموار وفات پائی،رحمه اللّٰه رحمةً واسعةً [3] مولانا فیض الحسن سہارنپوری رحمہ اللہ [1806۔1877ء] سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:فیض الحسن بن علی بخش بن خدا بخش قریشی حنفی سہانپوری۔برِصغیر میں عربی اَدب کے امام،محلّہ ولایت شاہ سہارنپور،یوپی بھارت کے ایک زمیندار گھرانے میں 1806ء میں پیدا ہوئے۔بچپن کھیل کود میں گزرا اور اس دوران پہلوانی بھی کرتے رہے۔تیرہ چودہ سال کی عمر میں ان تمام مشاغل سے اکتا کرتحصیلِ علم کی طرف توجہ کی۔والد ماجد عربی وفارسی کے عالم اور قرآنِ مجید کے حافظ تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔پھر رام پور میں مولانا فضل حق خیر آبادی(1278ھ)ودیگر سے معقولات،ادب اور علومِ فلسفہ سیکھے۔مزید تحصیلِ علم کیلئے دہلی آئے،مفتی صدر الدین(1285ھ)اور شاہ احمد سعید مجدّدی(1277ھ)سے اکتسابِ علم کیا۔آخون صاحب ولایتی سے سندِ حدیث حاصل کی۔متذکرۃ الصدر چاروں عالم اپنے وقت کے جلیل القدر استاذ اور فاضل شخصیات میں سے تھے۔[4] آپ نے مشق سخن مولوی امام بخش صہبائی(1273ھ)سے کی۔برِ صغیر کے مشہور شعراء شیفتہ(1869ء)،مومن(1851ء)،ذوق اور غالب(1868ء)سے آپ کی کافی صحبت رہی۔طب کی تعلیم حکیم امام الدین شاہی سے حاصل کی۔[5]
Flag Counter