Maktaba Wahhabi

716 - 609
نزول،ناسخ منسوخ۔لغاتِ قراءت،امتوں کے قصّے اور آئندہ کی خبریں۔‘‘[1] خلاصہ یہ کہ نسخ اور شان نزول تو مطلقاً نقل کی قسم سے ہیں،یعنی ان میں فہم و اجتہاد کا بالکل دخل نہیں اور تعیین مصداق کی بعض صورتیں تو نقل محض کی قسم سے ہیں اور بعض میں فہم کادخل ہو سکتا ہے۔رہا ان کے موقوف یا مرفوع ہونے کا فیصلہ تو شانِ نزول کے متعلّق تو یہ طے ہے کہ وہ مرفوع ہے اور نسخ بھی مرفوع ہے کیونکہ اسرائیلیات سے ہونے کا اس میں احتمال نہیں اور تعیین مصداق کی جن صورتوں میں فہم کا دخل نہیں ان میں سے بعض میں چونکہ اسرائیلی ہونے کا بھی احتمال ہے جیسے کہ آیت کریمہ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ[2]سے نمرود کا مرادہونا اور آیت﴿أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ[3] سے عُزیر کا مراد ہونا وغیرہ وغیرہ۔اس لئے اسکے نقل کرنے والے صحابی کو دیکھا جائے گا۔اگر اسرائیلیات سے نہیں لیتا تو مرفوع ہے ورنہ موقوف۔ تفسیر صحابی اور فتویٰ صحابی میں تفریق کے اَسباب علمائے کرام نے تفسیر صحابی کو تو حجت قرار دیا ہے خواہ اکیلے صحابی کی ہو یا جماعت کی اور فتویٰ صحابی کی نسبت کہا ہے کہ اگر اکیلے صحابی کا ہو اور مخالف موافق اس کا کوئی معلوم نہ ہو تو محققین محدثین کے نزدیک بلکہ ائمہ اربعہ کے نزدیک تو حجّت ہے لیکن بعض علما ء کے نزدیک حجّت نہیں۔اس تفریق(یعنی فتویٰ میں اختلاف ہونا اور تفسیرمیں نہ ہونا)کی درج ذیل وجوہات ہیں: 1۔ تفسیر زیادہ محل احتیاط ہے۔صحابہ ویسے تو مسئلہ بتلادیتے تھے مگر قال رسول الله کہنے سے بہت ڈرتے تھے۔ظاہر بات ہے کہ اللہ کی طرف نسبت کرنا رسول کی طرف نسبت کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔اسی لئے صحابہ قرآن مجید کی تفسیر میں بہت احتیاط کیا کرتے تھے۔پس صحابی کاجزم کے ساتھ کسی آیت کی تفسیر کرنا دلالت کرتا ہے کہ صحابی کو اس کی صحّت پر پوری تسلّی ہے۔اس لئے تفسیر کے حجّت ہونے میں ا ختلاف نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ(774ھ)فرماتے ہیں: ’’ شعبہ وغیرہ نے کہا ہے کہ تابعین کے اقوال فتویٰ میں حجّت نہیں تو تفسیر میں کیوں کر حجّت ہوں گے۔‘‘[4] اس عبارت میں اسی فرق کی طرف اشارہ ہے۔مطلب یہ ہے کہ تفسیر زیادہ محلّ احتیاط ہے اور صحابہ میں ایسی احتیاط تھی تو اس لئے ان کا قول حجّت ہوا اور تابعین کی طبیعت میں اتنی احتیاط نہیں تھی اس لئے ان کے اقوال،فروع میں حجّت نہیں تو تفسیر جو زیادہ محلّ احتیاط ہے اس میں کیوں کر حجت ہوں گے ؟ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ(751ھ)نےاعلام الموقعین میں امام حاکم رحمہ اللہ کے قول’تفسیر صحابی مرفوع حدیث ہے۔‘ کو ذکر کر کے اس کے دو معنی بیان کئے ہیں:ایک یہ کہ تفسیر صحابی حجّت ہے جیسے مرفوع حدیث حجّت ہے۔دوسرے معنی یہ کہ وہ سماع پرمحمول ہے
Flag Counter