Maktaba Wahhabi

721 - 609
انہوں نے ا س کو سمجھ کر پڑھا ہے کیونکہ انسان کوئی کتاب سبقاً پڑھتا ہے تو سمجھ کر ہی آگے جاتا ہے جب کہ فتویٰ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ جب کوئی معاملہ پیش آ جاتا ہے تو اس وقت جوکچھ سمجھ میں آیا مسئلہ بتلا دیا تو اس لحاظ سے بھی تفسیر کوفتویٰ پر ترجیح ہوئی اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ قرآن مجید کے الفاظ کی طرح ہر آیت کی تفسیر بھی صحابہ میں شائع تھی۔کیونکہ وہ مجرّد الفاظ نہیں سیکھتے تھی بلکہ معانی بھی ساتھ سیکھتے تھے پس ضروری ہے کہ جس کو الفاظ پہنچیں اس کو ہر آیت کا مطلب بھی پہنچے۔[1] مزید لکھتے ہیں: ’’ہاں فتوے میں یہ ہو سکتا ہے کہ علی العموم شائع نہ ہو کیونکہ اس میں یہ شرط نہیں کہ الفاظ قرآن مجید کے تابع ہوں یا ہر وقت وہاں تک ذہن کی رسائی ہو کیونکہ جب کوئی مسئلہ پیش آتا تھا اس وقت وہ غور ونظر کرتے تھے جب کہ اس کے برعکس تفسیر کے وہ اصل مطلب سے آگاہ تھے۔اور یہ ان کی عادت نہ تھی کہ طوطے کی طرح الفاظ کو سیکھ لیں اورمطلب نہ سمجھیں اور نہ آج تک کسی کا یہ دستور ہے کہ اپنی زبان میں ایک کتاب پڑھے اور مطلب سے واسطہ نہ رکھے۔‘‘[2] غرض اس قسم کی وجوہات تقاضا کرتی ہیں کہ تفسیر کا حکم فتویٰ سے الگ ہو۔ قول صحابی کی حجیت بعض علماء کہتے ہیں کہ محدثین کا خاص اصول ہے کہ موقوف حدیث حجّت نہیں(اور موقوف حدیث قول و فعل صحابی کو کہتے ہیں جس کے اندر تفسیر صحابی بھی داخل ہے)اس لئے ہم بھی اس کو حجّت تسلیم نہیں کرتے چنانچہ وہ درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں: 1۔ ائمہ اصول کے نزدیک یہ بات محقق ہو چکی ہے کہ اقوالِ صحابہ شرعی دلیل نہیں خاص کر جب وہ حدیث کے خلاف ہوں۔[3] متاخرین میں مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی مرحوم کو خاص امتیاز ہے وہ بھی اقوال صحابہ کی نسبت لکھتے ہیں: ’’ اگر صحابہ کے اقوال سے حجّت قائم نہیں ہو سکتی تو بعد کے لوگوں کے اقوال سے کیا ہو گی ؟‘‘[4] اس سے اقوالِ صحابہ کی عدم حجیت کے قائلین کے درج ذیل موقف سامنے آتے ہیں:نمبر ایک:سلف کے اختلافات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قول کو حجت نہ سمجھتے تھے توہم کیوں سمجھیں ؟ نمبر دو:جب محدثین کہتے ہیں کہ اقوال صحابہ حجت نہیں تو ہم حجت کس طرح کہیں؟ ’صحابہ کا آپس میں ایک دوسرے کے اقوال کو حجت نہ سمجھنا‘ اس کی وضاحت محدث روپڑی رحمہ اللہ نے یوں کی ہے: ’’منتہاء بحث تو بے شک خدا اور رسول بلکہ صرف خدا کا ارشاد ہے۔تفسیر صحابہ کو جو حجت کہا جاتا ہے تو بطور مجاز کہا جاتا ہے یعنی صحابہ خدا کی مراد پانے کا ذریعہ ہیں جیسے ائمہ عربیہ ذریعہ ہیں مگر ہمارے لئے ذریعہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آپس میں بھی ذریعہ ہو جائیں کیونکہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملنے والے تھے اور ایک ہی چشمہ سے پانی پینے والے تھے تو ایک دوسرے کیلئے ذریعہ کس
Flag Counter