Maktaba Wahhabi

605 - 609
پر لوگ جھوٹ بول دینےمیں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،ان مواقع پر بھی سچ ہی بولنے کی کوشش کرتا تھا اورمیرا ابتدا سے تجربہ ہے کہ سچ بولنے والا کبھی خسارہ میں نہیں رہتا۔‘‘[1] وفات حسرت آیات مولانا فراہی رحمہ اللہ کی صحت بہت اچھی تھی،لیکن کافی عرصہ سے انہیں دو بیماریوں کا سامنا تھا: 1۔ اکثر سر میں درد رہتا۔ 2۔. پیشاب رک جانے کی شکایت تھی۔ اوریہی بیماریاں ان کے انتقال کا باعث بنیں۔ان کا انتقال متھرا میں ہوا۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا کی عام صحت اچھی تھی۔وہ ابتدا سے ورزش کے عادی تھے اورہمیشہ اس کا التزام رکھتے تھے۔اس کا اثر ان کی صحت پر بہت نمایاں تھا،لیکن دو بیماریاں ان کو بہت سخت چمٹی ہوئی تھیں۔ایک دردِ سر جس کا حملہ اکثر ہوتا رہتا تھا اور جب اس کا حملہ ہوتا تو ان کو بالکل بیمار کر کے رکھ دیتا۔دوسری شکایت ان کو کبھی کبھی پیشاب کے رُک جانے کی تھی۔یہ تکلیف ان کو کئی بار ہوئی۔آخری مرتبہ جب ان کو یہ تکلیف ہوئی تو ان کو آپریشن کروانا پڑا۔آپریشن کے لئے وہ اپنے ایک ہم وطن ڈاکٹر کے پاس اعظم گڑھ سے متھرا گئے۔وہیں آپریشن ہوا اور نا کام رہا۔بالآخر جمادی الثانی 1349ھ بمطابق 11نومبر 1930ء کو انتقال فرمایا اور وہیں غریبوں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔‘‘[2] اعظم گڑھ کے مشہور طبیب حکیم محمد اسحٰق صاحب لکھتےہیں: ’’مولانا کے ہاں حاضری اخیر وقت تک جاری رہی۔ان کو آخری وقت میں جو بیماری ہوئی اس کے علاج کےسلسلے میں متھرا تشریف لے گئے تھے۔جہاں انکے عزیز ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب سول سرجن تھے۔مولانا نے وہیں انتقال فرمایا۔‘‘[3] مولانا کی تاریخ وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ’’اس عہد کا ابن تیمیہ 11نومبر 1930ء(19 جمادی الثانی 1349ھ)کو اس دُنیا سے رخصت ہو گیا۔‘‘ [4] وفات کے وقت مولاناکی عمر تقریباً 67 سال تھی۔[5] مولانا فراہی رحمہ اللہ نےاپنی پوری زندگی کو علمی جہاد کے لئے وقف کر رکھاتھا۔اصلاحِ عوام کےلئے ہمہ تن تیار رہتے۔تکلف وتصنع مولانا کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا،خوش خلق اورمتواضع تھے،ہر حال میں اپنے علمی کاموں میں مشغول رہتے۔موجودہ دور میں اس طرح کے شائقین وخدمت گذارانِ علم وادب کی توقع بہت کم کی جاسکتی ہے۔اللہ عزوجل مرحوم پر اپنی نوازشوں کی برکھا برسائیں،آمین!
Flag Counter