Maktaba Wahhabi

774 - 609
ہوتے،اور تفسیر قرآن میں اختلاف نہ ہوتا۔لیکن صورتحال اس کے برعکس ہوچکی ہے۔ مولانا رقمطراز ہیں: "إني رأیت جلّ اختلاف الآراء في التأویل من عدم التزام رباط الآيات،فإنه لو ظهر النّظام واستبان لنا عمود الكلام لجمعنا تحت راية واحدة وكلمة سواء"[1] کہ میں نے دیکھا کہ تاویل کا بیشتر اختلاف نتیجہ ہے اس بات کا کہ لوگوں نے آیات کے اندر نظم کا لحاظ نہیں رکھا ہے۔اگر نظمِ کلام ظاہر ہوتا اور سورت کا عمود یعنی مرکزی مضمون واضح طور پر سب کے سامنے ہوتا تو تاویل میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتا،بلکہ سب ایک ہی جھنڈے کے نیچے اور ایک کلمہ پر جمع ہوجاتے۔ مولانا کا خیال ہے کہ فہم کلام کیلئے نظم کلام ضروری ہے۔متکلّم نے جس مقصد کیلئے اپنے کلام اور اسلوبِ بیان کو ذریعہ بنایا ہے اس سے اس وقت تک واقف نہیں ہوا جا سکتا جب تک کلام کے مختلف حصّوں کا اجمالی تعلّق معلوم نہ ہو۔ایک جملہ دوسرے متّصل جملہ سے کئی اعتبارات سے مربوط سمجھا جا سکتا ہے۔ایسے موقع پر جو شخص جملوں کا صحیح ربط نہیں سمجھ سکتا،اس کو متعین کرنے میں غلطی کر دیتا ہے تو وہ اصل مفہوم کھو دیتا ہے اور کلام میں جو علم وحکمت پائی جاتی ہے اس پر وہ مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں: "وبالجملة محال أن تفهم كلاما من دون أن تعلم نسبة بعضها إلى بعض. فإن أخذت كل جزء طويل على حدته،غاب عنك بعض معانيه. ثم إن قصرت عن فهم نسبة أجزاء هذا الجزء،غاب عنك طرف آخر. حتى إنك تنقص من فهمك شيئًا فشيئًا،بقدر ما تقصر عن فهم النّسب التي بين أجزائه،فإذا تبيّن لك هذه النّسب والرّوابط بين أجزائه ورأيت أنه كلام مربوط،مسوق إلى عموده،ظهر حسن بيانه"[2] کہ یہ بات محال ہے کہ تم کلام کے مختلف حصوں کا تعلّق جانے بغیر کلام کو سمجھ لو گے کیونکہ جب تم اس کے ایک طویل حصّہ پر غور کرو گے تو اس کا کچھ مفہوم ذہن سے اُتر جائے گا۔پھر جب ایک حصہ کے اجزاء کا تعلّق سمجھنا چاہو گے تو دوسری طرف کے کئی پہلو نظر انداز ہو جائیں گے۔اس طرح اجزائے کلام کی جتنی نسبتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی،اس کے بقدر تم کلام کو نہیں سمجھ سکتے۔لیکن اگر یہ نسبتیں تم سمجھ جاؤ اور دیکھ لو کہ وہ عبارت بالکل مربوط کلام ہے جو ایک ہی مضمون کو حا مل ہے تو اس کا حسن بیان تم پر ظاہر ہو جائے گا۔ نظمِ قرآن كو بطور دعویٰ پیش کرنے کے اسباب نظم کی تلاش میں مولانا فراہی رحمہ اللہ اکیلے نہیں،بلکہ علماء کی ایک جماعت نے ان سے پہلے اس راہ میں کوششیں کی ہیں اور اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں،تو پھر مولانا کو نظامُ القرآن کو ایک دعویٰ کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔اس کے متعلّق وہ خود فرماتے ہیں:
Flag Counter