Maktaba Wahhabi

673 - 609
کہ اللہ عزو جل نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے۔ نیز فرمایا: ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا[1] کہ اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن کریم میں(ہر چیز کو)پھیر پھیر کر بیان کیا تاکہ لوگ سمجھ جائیں۔ لہٰذا جو شخص قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک موضوع میں وارد ہونے والی تمام مکرّر آیات کو جمع کر کے ان کا تقابل کرے۔اس طرح مفصّل آیات سے مجمل آیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور مبین آیات کا فہم وادراک مبہم کا مفہوم متعین کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔اس کے لئے لازم ہے کہ مطلق کو مقید پر اور عام کو خاص پر محمول کرے۔یہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے اس سے تجاوز کرنا کسی شخص کے لئے بھی موزوں نہیں۔اس لئے کہ صاحبِ کلام سے بڑھ کر اور کوئی اس کے اسرار ورموز سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود(32ھ)بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ[2] نازل ہوئی تو لوگوں پر بہت گراں گزری،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی،یا رسول اللہ!ہم سے کون سا شخص ایسا ہے جس سے ظلم نہ ہو جاتا ہو؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّهُ لَیْسَ الَّذِي تَعْنُونَ،أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ العَبْدُ الصّالِحُ:﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌإِنّمَا هُوَ الشِّرْكُ))[3] کہ اس سے وہ ظلم مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو،کیا تم نے نیک بندے(سیدنا لقمان)کی بات نہیں سنی کہ ’’یقیناً شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘‘،اس آیت میں بھی ظلم سے مراد شرک ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا ہے کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تفسیر قرآن کے وقت یہ بات ملحوظ رکھتے تھے کہ پہلے تفسیر القرآن بالقرآن کا طریقہ اختیار کیا جائے۔اس سے پہلا اصولِ تفسیر اَخذ ہوتا ہے۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا ماخذ جس کی طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تفسیر قرآن کے سلسلے میں رجوع کیا کرتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تھی۔جس کسی آیت کا معنیٰ ومفہوم ان کی سمجھ سے باہر ہوتا تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مطلب دریافت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر
Flag Counter