Maktaba Wahhabi

746 - 609
قال العلماء أو اقتضته قوانین العلوم التي یحتاج إليها المفسّر،وهذا مذموم"[1] کہ لوگوں کی اس بارے میں دو قسمیں ہیں۔پہلی تو یہ ہے کہ ایک آدمی سے کتاب اللہ کی کسی آیت کا معنی پوچھاگیا تو وہ علماء سلف کے اقوال اور مفسر کیلئے ضروری علوم کی مقتضی کی پروا کئے بغیر تفسیر کے درپے ہو جائے،یہ قسم مذموم ہے۔ محمد عبد العظیم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "التفسیر بالرأي،الجائز منه وغیر الجائز،المراد بالرأي هنا الاجتهاد،فإن کان الاجتهاد موفقا أي مستندا إلی ما یجب الاستناد إليه،بعیدا عن الجهالة والضلالة،فالتفسیر به محمود،وإلا فمذموم" [2] کہ تفسیر بالرّائے جائز بھی ہے اورناجائز بھی۔یہاں رائے سے مراد اجتہاد ہے،اگر اجتہاد گمراہی وضلالت سے پاک اورتفسیر میں ضروی چیزوں پر مشتمل ہو،تو تفسیر محمود ہوگی ورنہ مذموم۔ تفسیر بالرائے محمود کیلئے ضروری علوم جو شخص تفسیر بالرّائے کرنا چاہتا ہو،اس کیلئے علماء نے چند علوم میں مہارت کی شرط لگائی ہے،تاکہ ان کی روشنی میں وہ تفسیر بالرائے محمود کر سکے۔یہ علوم اس کیلئے بمنزلہ آلات واسباب کے ہیں،جو مفسر کو غلطی میں پڑنے سے محفوظ رکھتے ہیں،ہم ذیل میں ان علوم کا تذکرہ کریں گے اور ساتھ ہی بتائیں گے کہ یہ علوم فہم قرآن کے سلسلہ میں کس حد تک ممد ومعاون ہیں۔ 1۔الحدیث النبوی مفسر قرآن کے لئے علم حدیث میں مہارت بہت ضروری ہے،اس لیے کہ احادیث نبویہ ہی سے قرآن حکیم کے مجمل ومبہم مقامات کو توضیح ہوتی ہے۔ 2۔علم اللغہ علم لغت کی مدد سے معلوم کیا جاتا ہے کہ فلاں مفرد لفظ کو کس معنی کیلئے وضع کیا گیا ہے۔لغت میں معمولی آشنائی اس ضمن میں کافی نہیں،بلکہ خصوصی وسعت ومہارت ضرور ی ہے،اس لیے بعض اوقات ایک لفظ مشترک ہوتا ہے اوراس کے کئی معانی ہوتے ہیں،مفسر ایک معنی سے واقف ہوتا ہے اور دوسرے سے نہیں،حالانکہ قر آن میں وہی معنی مراد ہوتا ہے جس سے مفسر آگاہ نہیں۔ 3۔علم النحو مفسر کیلئے علم نحو میں مہارت بھی ضروری ہے اس لیے کہ اعرابی حالت کی تبدیلی سےبھی معنی میں فرق آجاتا ہے۔ 4۔علم الصرف اسی علم ہی کی مددسے کسی لفظ کے وزن اورصیغے کا پتا چلتا ہے،اس لیے اس علم کا سیکھنا بھی مفسر کیلئے ضروری ہے۔
Flag Counter