Maktaba Wahhabi

885 - 609
"أنّ قول الصّحابي ما لا مجال للرّأي فيه ولم یعرف بالأخذ عن الإسرائیلیات حكمه حکم المرفوع"[1] کہ اسرائیلیات سے استفادہ نہ کرنے والے صحابی کا وہ قول جس میں رائے کا احتمال نہ ہو حکماً مرفوع ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے وہ تفسیری اقوال جن میں عقل و رائےاور اسرائیلیات وغیرہ کا دخل نہ ہو،بالاتّفاق حدیثِ مرفوع کا درجہ رکھتے ہیں اور فرمانِ باری تعالیٰ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ[2] کے مطابق تفسیر قرآن کا بنیادی ماخذ ہیں۔ 2۔تفسیر اجتہادی تفسیر اجتہادی سے مراد صحابہ کرام کا قرآنِ کریم سے وہ استدلال اور گہرا استنباط ہے جس کی بنیاد لغت کا سرسری معنیٰ نہیں ہوتا۔جیسے فحوائے سیاق کلام سے کسی مطلب پر مطلع ہونا یا دو تین باتوں کوملا کر ان سے ایک مناسب نتیجہ نکالنا یا مقتضائے حال اور وضع متکلّم کو دیکھ کر اس سے کوئی بات اور نتیجہ نکالنا وغیرہ۔ مثلاً عدالت میں بیانِ واقعات کے بعد قاضی نتیجہ نکال کر جو فیصلہ کر دیتا ہے،اسے درایت اجتہادی کہتے ہیں۔اسی طرح بھنگ،چرس اور افیون وغیرہ کو نشہ کی وجہ سے شراب پر قیاس کر کے حرام قرار دینا۔اسی طرح آیتِ کریمہ﴿وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ[3]سے کفار کے صحتِ نکاح کا مسئلہ نکالنا یعنی ان کے آپس میں نکاح صحیح ہیں۔اسی طرح آیتِ کریمہ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا[4]اور آیتِ کریمہ﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ[5]دونوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ اقل مدّتِ حمل چھ ماہ ہے(کیونکہ تیس مہینوں سے دو سال نکالنے سے باقی چھ ماہ باقی بچ جاتے ہیں۔) صحابہ کی ایسی تفسیر کی اہمیت بھی واضح ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مربّی ومزکّی تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور مجالس سے وہ ہر ممکن استفادہ کرتے تھے،وحی کے نزول کے وقت حاضر ہوتے تھے،کئی واقعات،جن پر قرآن کریم اترتا تھا،میں بذاتِ خود شریک ہوتے تھے۔سلیم القلب،فہم تام،علم صحیح اور عمل صالح کے مالک تھے۔اس زمانہ کے محاورات کو خوب جانتے تھے،قرآن پاک ان کے محاورہ کے مطابق اترا۔ ہمیں اپنے زبان کے محاورات اور بول چال کی طرف خیال کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے مافی الضمیرپر کس طرح آسانی سے اطلاع پاتے ہیں،اسی طرح صحابہ کرام قرآن پاک کے مضامین کو آسانی سے سمجھتے تھے کیونکہ قرآنِ مجید فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ پایہ
Flag Counter