Maktaba Wahhabi

887 - 609
ہے۔اگر مذکورہ بالا باتوں کی رعایت نہ کی جائے تو وہ کلام بلیغ نہیں ہو سکتی۔اس کلام سے ظاہر ہوا کہ مخاطب کی ذکاوت،غباوت کا لحاظ رکھنا مفہومِ بلاغت میں داخل ہے۔پس جو شخص ذکی کے ساتھ غبی کا خطاب کرے یا غبی کے ساتھ ذکی کا خطاب کرے،وہ بلیغ نہیں ہو سکتا۔اسی لئے یہ بات نا ممکن ہے کہ ہزا رہا صحابہ رضی اللہ عنہم حاضرین مجلس کسی آیت کے اصل مطلب سے غفلت کرجائیں اور کسی کی سمجھ میں صحیح مطلب نہ آئے،کیونکہ اصل مخاطب وہی تھے اور انہیں کی خاطراللہ عزو جل نے قرآنِ مجید عربی زبان میں اُتارا چنانچہ بالخصوص ان کو خطاب کر کے بطور احسان فرمایا: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[1] کہ تحقیق اتارا ہم نے اس کو قرآن عربی تاکہ تم سمجھو۔ گویا جو اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہیں وہ قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت پر ایمان نہیں لائے۔اس تفصیل سے یہ بات واضح اور قرین انصاف معلوم ہوتی ہے کہ جس کو حاضرین وحی نے(جن کے سامنے قرآن پاک اترا اور جنہوں نے احادیث نبوی اپنے کانوں سے سنیں)سیاق و سباق اور محاورہ عرب کے خلاف نہیں گردانا،وہ ہرگز ہرگز سیاق وسباق اور محاورۂ عرب کے خلاف نہیں۔ تفسیر صحابی کی یہ قسم،جسے درایت تفسیری کہا جاتا ہے،اگرچہ مرفوع حکمی روایات کی طرح وحی تو نہیں،لیکن حجّت ہے،جس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔اس فصل میں ہمارا مقصود بھی یہی قسم ہے۔ محاورہ صحابہ کی اہمیت کے دلائل 1۔ کچھ عرصہ پہلے بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ مشکل ہیں،انہیں سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں بلکہ یہ تو ائمہ دین کا ہی کام ہے اور علمائے کرام ہمیشہ ان کے مقابلے میں یہ کہتے آئے تھے کہ قرآن و حدیث کوئی چیستاں تو نہیں کہ ان کا سادہ اور ظاہری مطلب بھی سمجھ میں نہ آئے بلکہ یہ تو فصیح عربی زبان میں ہیں لہٰذا جو شخص عربی زبان سیکھ لے تو وہ قرآن وحدیث کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ[2] خصوصیاتِ الفاظ سے تعلّق رکھنے والے معانی و مفاہیم کوسمجھنا اگرچہ ایک مشکل اَمر ہے لیکن کلام کا ظاہری معنی اور غرضِ متکلّم سمجھنا تو بلا شبہ،مشکل کام نہیں۔اگر یہ بھی کسی کو سمجھ میں نہ آسکیں تو قرآن و حدیث کو فصیح و بلیغ کہنا چہ معنی دارد؟ فرمانِ باری ہے:﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[3] ابھی یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تھا کہ ایک اور گروہ سامنے آیا۔ان کاکہنا ہے کہ عین ممکن ہے ہزارہا صحابہ کرام،جو مجلسِ نبوی میں بیٹھتے اور براہ راست پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دامن کو انوارِ شریعت سے بھرتے تھے اور جن کی ہدایت ودرایت پر پوری اُمت متفق ہے،کو ایک آیت کی تفسیر سمجھ نہ آئی ہو اور وہ اس میں غلطی کرگئے ہوں لیکن ہم نے اس کو صحیح مفہوم سمجھا ہو۔گویا ان کے نزدیک
Flag Counter