Maktaba Wahhabi

726 - 609
خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر صحابہ تو بلا شبہ حجت ہے اور فتویٰ صحابہ کی بابت ہم محمد علی شوکانی رحمہ اللہ سے نقل کر چکے ہیں کہ جب کوئی دوسرا صحابی مخالفت نہ کرے تو حجت ہے اور اگر ایک صحابی کا قول جس کی بابت کسی کی موافقت مخالفت معلوم نہ ہو تو بعض کہتے ہیں حجت ہے بعض کہتے ہیں حجت نہیں مگر محققین محدثین اس پر ہیں کہ حجت ہے بلکہ ائمہ بھی اسی پر ہیں اور شوکانی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔باقی رہی یہ بحث کہ صحابہ کے باہمی اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فہم کا دخل ہے اس لئے وہ حجت نہیں تو اس کا جواب محدث روپڑی رحمہ اللہ نے یوں دیا ہے: ’’اگر یہ شبہ ہو کہ کئی دفعہ اہل زبان یعنی صحابہ کا اختلاف ہو جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے فہم کو دخل ہے تو اس شبہ کو یوں رفع کیجئے کہ قواعدِ عربیہ میں بھی فہم کو دخل ہے جسکی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے جیسے خمر کے کیا معنی ہیں ؟ واؤ ترتیب کیلئے ہے یا نہیں۔اس قسم کے سینکڑوں اختلافات ہیں تو وہاں کیا صورت ہے ؟ یہی کہ جس بات میں اختلاف نہیں ہوتا وہ تو بے کھٹکے مان لی جاتی ہے اور جس میں اختلاف ہوتا ہے وہاں راجح مرجوح کو دیکھا جاتا ہے۔بس بعینہٖ یہ صورت اگر تفسیر میں برتی جائے تو آج ہی رنگ لگ جائے۔‘‘[1] مزید لکھتے ہیں: ’’ا س کے علاوہ یہ ایک موٹی اور عام فہم با ت ہے کہ جب اختلاف نہیں ہو گا تو تین صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی،یا تو وہ بات واضح ہو گی کیونکہ باریک بات ہوتی تو کسی کی سمجھ میں آتی کسی کی سمجھ میں نہ آتی تو ضروری تھا کہ کوئی مانتا کوئی نہ مانتا۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو گی اس لئے جس نے سنی سرجھکا دیا یا بھیڑچال سے مانتے آئے ہوں گے۔تیسری صورت تو سلف کے حق میں سوء ظنی ہے تو پھر جس تفسیر میں سلف کا اختلاف نہ ہو ا س کے ماننے میں کیا عذر ہے ؟ مثلاً طیور ابراہیمی کے ذبح ہونے میں سلف کا اختلاف نہیں۔بنی اسرائیل پر بادلوں کا سایہ ہونے میں سلف کا اختلاف نہیں۔داؤد کے لوہے کے موم ہونے میں سلف کا ا ختلاف نہیں،مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھلوں کے آنے میں سلف کا ا ختلاف نہیں اسی طرح آیت کریمہ ﴿حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ[2]کی تفسیر میں نار سے آسمانی نار ہونے میں سلف کا اختلاف نہیں اسی طرح بہت جگہیں ہیں جن میں سلف کا ا ختلاف نہیں،لیکن اس کے باوجود نیچری و مرزائی وغیرہ اس کے انکاری ہیں۔‘‘[3] تفسیر میں ’اجماعِ صحابہ‘ کی حجیت اجماع کا لغوی معنی پختہ ارادہ ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے کسی زمانہ کے مجتہد آپ کے بعد کسی امر پر اتفاق کر لیں۔اتفاق سے مراد اعتقاد یا قول یا فعل میں شرکت ہے امر کا لفظ احکام شرعیہ اور امور عقلیہ اور عرفیہ اور لغویہ تمام کو شامل ہے۔[4]
Flag Counter