Maktaba Wahhabi

1040 - 609
مولانا فراہی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ تمام آسمانی کتابوں کی شرح ایک دوسرے کی مدد سے کی جائے گی،كيونکہ ان کی زبان عربی وعبرانی ہے،جو ایک ہی اصل سے نکلی ہیں اور آسمانی کتابوں کی زبانیں ہیں،لہٰذا تمام آسمانی کتب ایک دوسرے کے مشابہ اور ایک دوسرے کا معنیٰ واضح کرتی ہیں،اس پر مولانا نے چھ دلائل قائم کیے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں،فرماتے ہیں: فاعلم أن کلام المسیح المروي باللغة اليونانية أصله عبراني. فلغة الإنجيل وكتب العهد العتيق واحدة،ولا شكّ أن العربي والعبراني۔وهما لغتا الكتب المنزّلة۔صنوان. إذا كان الأمر هكذا لا بدّ أن تشبّه بعضها بعضا،أو تهدي إحداهما إلى معنى الأخرى،1۔ثم لما كانت مطالب هذه الكتب متقاربة، ونبعت كلّها من ضئضئ الوحي فجدير بها أن تتَساوق،3۔ولما أن القرآن وعدنا تفصيل بعض أمور التبست على أهل الكتاب ينبغي لنا أن نفهم ما يفصّله القرآن لنا،4۔ولما أنه يصدّق الكتب المنزلة ازددنا اطمئنانا إن علمنا توافقهما،وسبيل تأويل بعضها إلى بعض،5۔ولما أن القرآن قول فصل وقرآن مبين وأكثر الكتب المنزّلة شعر وتخييل يلزم على من أراد فهمها أن يلتمسه من القرآن،6۔ولما أن لغة كتب العهد العتيق صارت معطّلة،فغاب أدبها وغاض مشربها،فلا بدّ أن يفهم كلامها من لغة القرآن. [1] کہ یہ معلوم ہے کہ سیدنا مسیح کا کلام جس کی روایت یونانی زبان میں ہوئی،در اصل عبرانی زبان میں تھا،انجیل اور تورات کی زبان ایک ہی ہے۔اور یہ اَمر بھی ہر شخص کو معلوم ہے کہ عربی اور عبرانی۔جو آسمانی کتابوں کی زبانیں ہیں۔دونوں ایک ہی اصل سے نکلی ہیں۔ایسی صورت میں ناگزیر ہے کہ ان دونوں میں نہایت گہری مماثلت ومشابہت ہو اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معانی کی طرف رہبری کرے:1۔پھر ان تمام صحیفوں کے مطالب بھی ایک سے ہیں۔2۔یہ سب وحی کے پاک سرچشمے سے نکلی ہیں اس لیے بھی ان میں یکسانی و ہم رنگی ہونا قدرتی ہے۔3۔علاوہ ازیں قرآنِ کریم میں ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ جو امور اہلِ کتاب پر مشتبہ رہ گئے،قرآن ہمارے لیے ان کی تفصیل کرے گا،پس ان امور کا جاننا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے۔4۔نیز قرآن مجید پچھلی آسمانی کتابوں کا مصدق ہے تو ان کی باہمی موافقت اور سازگاری لازماً ایمان کی زیادتی اور اطمینانِ قلب کا باعث ہوگی۔5۔پھر قرآن جھگڑے کو چکانے والی اور اختلافات کو رفع کرنے والی کتاب بن کر نازل ہوا ہے اور ا س کے ما سوا اکثر کتبِ منزّلہ تخییل اور شعر ہیں لہٰذا جو لوگ ان کتابوں کو سمجھنا چاہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قرآن کی روشنی میں سمجھیں۔6۔پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ پرانے صحیفے متروک ہو چکے ہیں اس وجہ سے ان کی زبان مٹ چکی ہے۔اب اگر کوئی شخص ان کو سمجھنا چاہے تو اس کے لیے صرف ایک ہی شکل ہے کہ انہیں لغتِ قرآن کی رہنمائی سے سمجھے۔ سابقہ صحائف محرف ہیں قرآنِ کریم میں کئی ایک مقام پر یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ اہلِ کتاب نے دُنیاوی مفادات کیلئے اپنے صحیفوں میں تحریک کر دی،وہ اپنے ہاتھوں سے لکھ عوام کو یہ باور کراتے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ایک مقام پر اللہ عزو جل فرماتے ہیں: ﴿وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ
Flag Counter